کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 540
کسی کے بھی سامنے نہ ہو تو کسی فرد یا گورنمنٹ کے سامنے ہونے یا سامنے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بہرصورت غیر باپ کو باپ لکھنا یا کہنا جرم وگناہ ہے۔ صحیح بخاری کتاب المناقب باب نمبر ۵ حدیث نمبر ۳۵۰۸ میں ہے :﴿عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ س: أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ : لَیْسَ مِنْ رَّجُلٍ اِدَّعٰی لِغَیْرِ أَبِیْہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلاَّ کفَرَ بِااللّٰه وَمَنْ اِدَّعٰی قَوْمًا لَّیْسَ لَہُ فِیْہِمْ نَسَبٌ فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ﴾ [حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا نہیں ہے کوئی آدمی جو اپنے اصلی باپ کے سوا اور کسی کو اپنا باپ بنائے حالانکہ وہ جانتا بھی ہو مگر وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جو آدمی کسی ایسی قوم کی طرف نسبت کرے جن میں سے وہ نہیں ہے پس وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے]پھر صحیح بخاری کتاب الفرائض باب نمبر ۲۹ مَنِ ادَّعٰی لِغَیْرِ أَبِیْہِ حدیث نمبر ۶۷۶۶ میں ہے﴿عَنْ سَعْدٍ رضی اللّٰه عنہ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰه ِصلی اللّٰهُ علیہ وسلم یَقُوْلُ : مَنِ ادَّعٰی إِلَی غَیْرِ أَبِیْہِ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہٗ غَیْرُ أَبِیْہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ ۔ فَذَکَرْتُہٗ لِأَبِیْ بَکْرَۃَ فَقَالَ : وَأَنَا سَمِعَتْہٗ أُذُنَایَ ، وَوَعَاہُ قَلْبِیْ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰه ﴾ [حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جو کوئی اپنے اصلی باپ کے سوا اور کسی کو اپنا باپ بنائے حالانکہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر بہشت حرام ہو گی ابوعثمان نہدی نے کہا میں نے یہ حدیث ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ سے بیان کی تو انہوں نے کہا میرے کانوں نے بھی یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور اس کو میرے دل نے یاد رکھا] اور حدیث نمبر۶۷۶۸ میں ہے﴿عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ : لاَ تَرْغَبُوْا عَنْ آبَآئِ کُمْ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِیْہِ فَہُوَ کُفْرٌ﴾ [حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے باپ دادا سے منحرف نہ ہو جو شخص اپنے باپ کو چھوڑ کر دوسرے کو باپ بنائے اس نے ناشکری کی] سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما والی حدیث صحیح بخاری کتاب المغازی باب نمبر۵۷ غزوۃ الطائف فی شوال سنۃ ثمان حدیث نمبر ۴۳۲۶-۴۳۲۷ میں بھی موجود ہے۔ اور معلوم ہے کہ ادعاء الی غیر الأب اور باپ سے بے رغبتی عام لکھ کر ہو یا زبان سے بول کرہو پھر سمجھ کر ہو خواہ کسی اور طرح سے ہو بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ ’’وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ غَیْرُ أَبِیْہِ‘‘ اس کو باپ نہ سمجھتے ہوئے اسے باپ کہنے یا لکھنے کو شامل ہونے میں نص صریح ہے اس لیے آپ کے بھائیوں کا یہ کہنا’’ہم اس کو باپ نہیں سمجھتے نہ کہتے ہیں‘‘ نیز کسی مفتی صاحب کا فرمانا ’’چونکہ وہ حقیقتاً اس کو اپنا باپ نہیں سمجھتے نہ کہتے ہیں اس لیے یہ حدیث یہاں فٹ نہیں آتی‘‘