کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 54
(۳) بالخصوص جب کہ مستند اور صحیح روایت سے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ طرز عمل ثابت ہے کہ انہوں نے قحط سالی کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارکہ پر جا کر استغاثہ نہیں کیا بلکہ کھلے میدان میں نماز استسقاء کا اہتمام کیا جو ایک مسنون عمل ہے اور اس میں زندہ بزرگ عم رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعاء کروائی [1]یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ہے اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قحط پڑا تو انہوں نے بھی ایک اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی ۔
ان مستند واقعات اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے طرز عمل کے مقابلے میں ایک غیر مستند روایت اور وہ بھی خواب پر مبنی ، نیز مجہول شخص کے بیان کو کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے ؟
مذکورہ وجوہ سہ گانہ کی وجہ سے مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت کسی طرح بھی قابل استدلال نہیں رہتی تاہم اگر اسے کسی درجہ میں قابل حجت تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس روایت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کوہی ہدایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر کہو کہ وہ لوگوں کو ساتھ لے کر دعاء کریں یعنی نماز استسقاء کا اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر آنے والے شخص کو یہ نہیں کہا کہ اچھا میں تمہارے لیے دعاء کرتا ہوں یا کروں گا یا تم لوگ میری قبر پر جمع ہو کر آؤ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کا مسنون طریقہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔
’’الادب المفرد‘‘ کی ایک روایت سے استدلال اور اس کی حقیقت : ایک اور دلیل مضمون نگار نے یہ پیش کی ہے ۔
’’اسی طرح مصیبت اور تکلیف کے وقت پکارنے کے بارے میں ’’الادب المفرد ‘‘ ص۱۴۲زیر عنوان ’’باب ما یقول الرجل اذا خدرت رجلہ‘‘ لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہو گیا تو ایک آدمی نے انہیں کہا کسی ایسے انسان کو یاد کیجئے جس کے ساتھ آپ کو سب سے (زیادہ) محبت ہے تو انہوں نے پکارا ’’یا محمد‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم (اور ان کی تکلیف دور ہو گئی) لیکن کتنا عجیب وغریب وہ کلمہ گو شخص ہے جس کو یا محمد صلی اللہ علیک وسلم کہنے میں تکلیف ہوتی ہے ‘‘[2]
سند کی بحث سے قطع نظر ، مسئلہ زیر بحث سے اس واقعے کا کوئی تعلق نہیں کیوں کہ بحث تو ہے فوت شدگان کو مدد کے لیے پکارنا جائز ہے یا نہیں ؟ جب کہ مذکورہ واقعے میں جسمانی تکلیف کا ایک نفسیاتی علاج بتایا گیا ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اختیار فرما لیا ۔ انہوں نے ’’محمد‘‘ یا ’’یا محمد‘‘ (بہ اختلاف روایات) اس عقیدے کے تحت نہیں پکارا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی فریاد سن لیں گے اور پھر مدد فرما دیں گے ۔ بلکہ کسی نے پیروں کے سن ہو جانے کا یہ علاج بتلایا کہ اپنے سب سے زیادہ محبوب شخصیت کا نام لو ، تو یہ تکلیف دور ہو جائے گی ۔
[1] بخاری کتاب الاستسقاء باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا۔
[2] سیدھا راستہ ص۲۵ ۔۲۶