کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 537
﴿لَوْ دَخَلُوْہَا مَا خَرَجُوْا مِنْہَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ﴾(۱) اگر وہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے نیز آپ نے فرمایا﴿لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰه ِ﴾ اللہ کی نافرمانی کے کام میں کسی مخلوق کی کوئی طاعت نہیں۔
دیکھئے محترم ! اگر بالفرض حکومت قانون بنا دے کہ ترانہ کے وقت تمام سامعین اس کی تعظیم کی خاطر جھک جائیں یا ماتھا زمین پر رکھ دیں تو کیا اہل اسلام اس قانون کا احترام کرتے ہوئے یہ کام کرنے کو تیار ہیں ؟ نہیں ہر گز نہیں کیونکہ اسلام، دین اور اللہ تعالیٰ کا قانون مقدم ہے انسانوں کے بنے ہوئے قانون اللہ تعالیٰ کے بنے ہوئے قانون کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے مثال کے طور پر ربا اور سود ہی کو لے لیجئے شریعت اسلامیہ میں تو یہ قطعاً حرام ہے ملکی قانون کے لحاظ سے ملک میں چل رہا ہے تو اب احترام ہم قانون الٰہی کا کریں یا قانون ملکی کا ؟ ظاہر ہے ہر مسلمان یہی کہے گا کہ ہم تو ایسے ملکی قانون کا احترام کرنے سے رہے جس سے قانون الٰہی ہی کا دامن چھوٹ جائے ۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آپ کو کئی مثالیں ملیں گی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کئی ایک ملکی قوانین کی صرف اس لیے مخالفت کی کہ ان قوانین ملکیہ سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہوتی تھی مثلاً حج تمتع نہ کرنا، مرتدین کو جلانا اور خطبہ نماز عید سے پہلے دینا تو جب زمانہ خیر القرون میں انسانوں کا بنا ہوا قانون صرف اس لیے قابل احترام واتباع نہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے بنے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قانون کی مخالفت ہوتی ہے تو پھر موجودہ دور کی حکومتوں کے بنے ہوئے قانون کس باغ کی مولی ہیں؟ کہ ہم ان کے احترام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دیں ترمذی شریف میں موجود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول :﴿أَاَمْرُ أَبِیْ یُتَّبَعُ اَمْ اَمْرُ رَسُوْلِ اللّٰه ِ صلی للّٰهُ علیہ وسلم ﴾(۲) [کیا میرے باپ کے امر کی پیروی ہو گی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی] سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کا صحیح فہم اور ان پر صحیح معنوں میں خالصۃً لوجہ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
۲۷/۶/۱۴۰۶ ھ
س: کسی خاص تقریب میں جس میں افسران حضرات بھی موجود ہوں ترانہ کے وقت افسران کے ساتھ کھڑا ہو جانا جبکہ دل میں اس کے شرعی جواز کی نیت نہ ہو کیا کفر تو لازم نہیں ہو جاتا یا افسران کی آمد کے وقت کھڑا ہو جانا ۔ ان مذکورہ