کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 53
(اور الاستیعاب کے الفاظ یہ ہیں کہ) خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ لوگوں کے لیے بارش کی دعاء کریں انہیں بارش دی جائے گی اور انہیں کہو کہ احتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو ۔ وہ صاحب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ماجرا بیان کیا ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو دئیے ۔ کہا یا اللہ (جل جلالک) میں اپنی بساط بھر کوتاہی نہیں کرتا‘‘ ۔ [1] یہ واقعہ بلاشبہ حدیث کی ایک کتاب ’’مصنف ابن ابی شیبہ ج۱۲ص۳۲‘‘ اور فتح الباری ج۲ص۴۹۵ کتاب الاستسقاء باب سوم میں درج ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی بابت کہاہے ۔ وروی عن ابن ابی شیبہ باسناد صحیح من روایۃ ابی صالح السمان عن مالک الدار الخ اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ ابو صالح السمان عن مالک الدار کے حوالے سے بیان کیا ہے لیکن تین وجوہ سے یہ واقعہ ناقابل استدلال ہے۔ (۱) یہ قصہ صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ واقعے کا اصل راوی مالک الدار ہے جو مجہول ہے جب تک اس کی عدالت اور ضبط کا علم نہیں ہو گا یہ واقعہ ساقط الاعتبار ہو گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو یہ کہا ہے باسناد صحیح من روایۃ ابی صالح السمان تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سنداً ابو صالح السمان تک یہ روایت صحیح ہے ۔ مالک الدار کے حالات کا چونکہ حافظ ابن حجر کو علم نہیں ہو سکا تھا اس لیے انہوں نے اس کی بابت خاموشی اختیار کر کے ابو صالح تک سلسلہ سند کو صحیح قرار دے دیا ، مقصد یہ تھا کہ مالک الدار کی عدالت وضبط کی بھی اگر توثیق ہو جائے تو یہ روایت بالکل صحیح ہے بصورت دیگر غیر صحیح ۔ ان کی تصحیح کا مطلب پوری سند کی تصحیح نہیں ہے اگر پوری سند ان کے نزدیک صحیح ہوتی تو وہ اس طرح کہتے ’’عن مالک الدارواسنادہ صحیح‘‘ لیکن حافظ صاحب نے اس طرح نہیں کہا ۔ اس لیے جب تک واقعہ کا اصل راوی - مالک الدار - کی توثیق نہیں ثابت ہو گی ، یہ واقعہ ناقابل حجت ہو گا ۔ (۲) یہ قصہ سنداً صحیح ہو تب بھی حجت نہیں ، اس لیے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کا ایک آدمی پر مدار ہے جو نامعلوم اور مجہول ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سیف بن عمر کے حوالے سے اس نامعلوم آدمی کا نام بلال بن الحارث (صحابی) بتلایا ہے ۔ حالانکہ سیف بن عمر خود محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے۔ بلکہ اس کی بابت یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ثقہ راویوں کے نام سے من گھڑت حدیثیں بیان کرتا تھا ۔ ایسے کذاب ووضاع راوی کے بیان پر یہ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر عرض گزار ہونے والے ایک صحابی حضرت بلال بن الحارث المزنی تھے؟
[1] ماہنامہ ’’سیدھا راستہ‘‘ ص۲۵ جون ۱۹۹۱