کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 525
مخالفت کرو سفید بالوں کو رنگو مگر سیاہ نہ کرو ۔ اس کی وضاحت فرمائیں پہلے بھی آپ نے فرمایا کہ جب تمام بال سفید ہو جائیں اور ایک بال بھی سیاہ نہ ہو تو پھر اس پر عمل ہو سکتا ہے ۔ مگر میں مطمئن نہیں ہوا کیونکہ مندرجہ بالا حکم کے مقابلے میں مجھے ایسی کوئی دلیل نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ تمام بال سفید ہو جائیں اور ایک بھی سیاہ نہ ہو ۔ بلکہ یہ ایک حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید بال گنے جا سکتے تھے یعنی سفید کم تھے اور سیاہ زیادہ تھے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سفید کم اور سیاہ زیادہ ہوں تو نہ رنگنے کی گنجائش ہے مگر یہ دلیل نہیں مل رہی کہ تمام کے تمام بال سفید ہوجائیں تو رنگنے چاہیں مگر اب حال تو یہ ہے کہ جو حضرات رنگنے کے قائل نہیں وہ تو تمام کے تمام بال سفید ہونے پر بھی نہیں رنگتے ۔ محمد یعقوب ہری پور ج: صحیح مسلم کتاب اللباس میں ہے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد گرامی ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو اس کا سر اور اس کی داڑھی ثغامہ بوٹی کی طرح بالکل سفید تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے سفید بالوں کو بدلو اور اسے سیاہ رنگ سے بچاؤ ۔ ۵/۸/۱۴۱۶ ھ س: کیا مرد عورتوں والا بال صفاء استعمال کر سکتا ہے کیونکہ کتابوں میں پڑھا ہے کہ صحابہ کرام نورہ وغیرہ استعمال کرتے تھے وہ نورہ کیا تھا اس مسئلہ کو میرے دوست نے پوچھا ہے ۔ محمد سلیم بٹ ج: مرد اور عورت دونوں کے لیے درست ہے البتہ لوہا استعمال کرنا دونوں کے لیے بہتر ہے ۔ ۱۵/۲/۱۴۱۶ ھ س: ایک مسلمان شادی شدہ بچی اپنے سر کے بال اپنی مرضی سے کٹواتی ہے ۔ دوسری صورت کہ ایک شادی شدہ عورت خاوند کے کہنے پر بناؤ سنگھار کے لیے سر کے بال کٹواتی ہے ۔ ان دونوں صورتوں میں احکام الٰہی اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا احکامات ہیں اور کتنا بڑا گناہ ہے ؟ عبدالرشید رشدی ج: عورت کے لیے سر کے بال کٹانا ، کاٹنا ، منڈانا اور مونڈنا درست نہیں جیسا کہ وصل شعر پر لعنت اور غسل جنابت میں شعر مضفور میں رعایت والی احادیث سے ثابت ہوتا ہے دونوں صورتوں میں درست نہیں بچی اپنی مرضی سے یہ کام کرے یا خاوند وغیرہ کے کہنے پر یہ کام کرے البتہ احرام کھولتے وقت عورت پر تقصیر ہے ۔ واللہ اعلم ۱۲/۵/۱۴۱۸ ھ س: کیا عورت سر کے بال کاٹ سکتی ہے ؟ عباس الٰہی ظہیر ج: حالت اختیار میں عورت کا احرام کھولتے وقت سر کے بال کٹانا ثابت ہے اس کے علاوہ ثابت نہیں۔ ۲۳/۷/۱۴۱۴ ھ