کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 52
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت ساریہ کو نہ پکارتے جو ایران میں نہاوند کے علاقے میں مصروف جہاد تھے‘‘ ۔ [1] لیکن ہم عرض کریں گے کہ فوت شدہ کو پکارنے کو شرک سے تعبیر کرنا ، قرآن پاک اور احادیث صحیحہ کے عین مطابق ہے۔ یہ فتویٰ قرآن پاک اور حدیث پاک پر نظر کی کمی کا نہیں بلکہ قرآن مجید کے صحیح فہم اور احادیث صحیحہ کے گہرے مطالعے کا نتیجہ ہے جس پر بیسیوں آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ پیش کی جا سکتی ہیں۔ جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ [2] کا تعلق ہے ، یہ واقعہ سنداً بلاشبہ قابل قبول ہے لیکن یہ بطور کرامت ہے جس سے کسی مسئلے کے اثبات کے لیے استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ معجزہ اور کرامت یہ انسان کے اختیاری فعل نہیں ۔ یہ اللہ کی مشیت کے تحت صادر ہوتے ہیں ، اسی لیے کوئی نبی محض اپنے اختیار سے اللہ کی مشیت کے بغیر معجزہ صادر کر کے نہیں دکھا سکتا اور کوئی ولی کسی کرامت کا اظہار نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں یہ اصول مسلمہ ہے کہ معجزہ اور کرامت سے استدلال جائز نہیں ۔ اس لیے مضمون نگار کا یا ساریۃ الجبل کے واقعے سے استدلال بڑا عجیب اور اہل سنت کے مسلمہ اصول کے خلاف ہے ۔ البتہ حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کے واقعے میں اگر مزید غور کیا جائے تو اس سے یہ پہلو مزید واضح ہو جاتا ہے کہ دور خیر القرون میں مصیبت کے وقت فوت شدہ یا نظروں سے غائب بزرگوں کو مدد کے لیے پکارنے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ ورنہ حضرت ساریہ ، جو دشمن کے نرغے میں گھر گئے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مدد کے لیے ضرور پکارتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ اس دور میں اس شرک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ، وہ تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس لشکر کی مدد فرمانی تھی جو نہاوند میں حضرت ساریہ کی سرکردگی وقیادت میں کافروں کے خلاف صف آراء تھا ۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ(اے ساریہ پہاڑ کے دامن میں پناہ لو) کے الفاظ نہ صرف کہلوائے بلکہ معجزانہ طور پر یہ الفاظ سینکڑوں میل کے فاصلے کے باوجود حضرت ساریہ کے کانوں تک بھی پہنچا دئیے ۔ ایک مجہول الحال آدمی کے خواب سے استدلال: اس کے بعد مضمون نگار نے ’’ وصال شدہ کو پکارنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے‘‘ کا عنوان دے کر بعض عجیب وغریب دلائل اور بعض غیر ثابت شدہ روایات پیش فرمائی ہیں ۔ ہم ذیل میں ان کی حقیقت بھی واضح کرتے ہیں ۔ ایک دلیل یہ دی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط واقع ہو گیا ۔ ایک صاحب حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ صحابی ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے پانی مانگیے ۔ کیونکہ وہ ہلاک ہوتی جا رہی ہے تو ایک مردان (حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ ) کے خواب میں آئے
[1] ماہنامہ ’’سیدھا راستہ‘‘ ص۲۴ [2] مشکوٰۃ باب الکرامات