کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 51
مذکورہ اسٹکر پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس میں قرآن مجید کے ترجمہ میں تحریف کر کے فرقہ پرستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے حالانکہ سٹکر میں درج شدہ ترجمہ سے نہ قرآن کریم کے ترجمہ میں تحریف ہوئی ہے نہ کسی فرقہ پرستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے بلکہ قرآن کریم کی پیش کردہ دعوت توحید تمام اہل اسلام کو پہنچانے کی سعی کی گئی ہے ۔ اس کے برعکس مضمون نگار نے فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن کریم کی دعوت توحید کو مسخ کرنے کی مذموم سعی کی ہے اور یہ باور کرانا چاہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو پکارنا جائز ہے۔ یہ شرک نہیں ہے اپنے اس مشرکانہ عقیدے کے اثبات کے لیے مضمون نگار نے جو مغالطے دئیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں ۔ پہلا مغالطہ مضمون نگار نے یہ دیا ہے کہ محض کسی کو پکارنا شرک نہیں ہے ۔ صرف وہ پکارنا شرک ہے جو کسی کو معبود سمجھ کر پکارا جائے ۔ یہ بات اس حد تک تو یقینا صحیح ہے کہ جب ہم آپس میں ظاہری اسباب کے مطابق ایک دوسرے کو پکارتے یا بلاتے یا مدد طلب کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کو معبود یا حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھتے ۔ اس لیے یہ یقینا شرک نہیں ہے نہ اسے آج تک کسی نے شرک سے تعبیر ہی کیا ہے اصل مابہ النزاع پکارنا جو ہے ، وہ اور ہے اور وہ ہے کسی کو مافوق الاسباب طریقے سے مدد کے لیے پکارنا ، اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارنا ، دور اور نزدیک سے یہ سمجھ کر پکارنا کہ وہ میری فریاد سننے پر اور اس کے مطابق فریاد رسی پر قادر ہے دراں حالیکہ وہ فوت شدہ ہے یہ پکارنا شرک ہے جس طرح لوگ ’’یا علی مدد‘‘ کہہ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ، بعض لو گ ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور بعض لوگ ’’یا شیخ عبدالقادر شیئا ﷲ‘‘ یا ’’المدد یا غوث اعظم‘‘ کہہ کر پیر جیلانی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں یہ پکارنا ظاہر بات ہے مافوق الاسباب طریقے سے ہے ، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی پکارنے والے کے سامنے زندہ موجود نہیں ہے ۔ گویا پکارنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اگرچہ ان کو فوت ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں ۔ ان کی قبریں بھی ہزاروں میل کے فاصلے پر ہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کی طرح میری فریاد سن سکتے ہیں اور میری حاجت روائی کر سکتے ہیں ۔ تب ہی تو وہ ہزاروں میل کے فاصلے سے ان کو مدد کے لیے پکارتا ہے ۔ حاجت براری کے لیے ان سے دعائیں کرتا ہے اور ان کی خوشنودی کے لیے ان کے نام کی نذر نیازیں دیتا ہے ۔ یہ بھی اگر شرک نہیں ہے تو پھر کہنا چاہیے کہ دنیا میں شرک کا وجود ہی کبھی نہیں رہا ہے اور نہ اب ہے ۔ مضمون نگار لکھتا ہے کہ یہ کہنا ’’حاضر غائب کو اور زندہ فوت شدہ کو نہیں پکار سکتا‘‘ اگر پکارے گا تو شرک وبدعت ہو گا۔ یہ فتویٰ قرآن پاک اور حدیث پاک پر نظر کی کمی سے پیدا ہوا ہے ۔ غائب کو پکارنا اگر شرک وبدعت ہوتا تو حضرت