کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 508
اس کی سند میں ایک دو راوی مجہول ہیں اس لیے اس روایت سے کھڑے ہو کر جوتے پہننے کی گنجائش پر استدلال درست نہیں ۔بعض اہل علم کا خیال ہے کہ مذکور بالا حدیث میں وارد شدہ حکم تسمے والے جوتوں کے ساتھ مخصوص ہے ہمہ قسم کے جوتوں کو متناول نہیں مگر مجھے ابھی تک کتاب وسنت سے تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ملی ۔ ۱۱/۵/۱۴۰۹ ھ س: بات یہ ہے کہ میں نے جو سوال آپ کو کیا اس کے جواب میں کچھ اشکال ہے مہربانی فرما کر دور فرمائیں ؟ آپ نے لکھا کہ ’’بعض اہل علم کا کہنا ہے یہ مخصوص جوتے ہیں یا تسمے والے جوتے ہیں‘‘ اس کے بعد آپ نے لکھا ہے کہ ’’ان حضرات کے پاس ان کے کہنے کی کوئی دلیل نہیں‘‘ تو اس کے متعلق عرض ہے کہ ایک ’’اہل علم‘‘ سے بات ہوئی اس نے ’’دلیل‘‘ دی جو کہ درج ذیل ہے ۔ (۱) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ فطر کا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر غلام اورآزاد اور چھوٹے بڑے پر ہے1۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جی آج جو صاع ہے وہی صدقہ دے دو چاہے اس صاع سے زیادہ ہو یا کم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں صاع تھا ۔ چاہیے تو ایسے کہ جو صاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارکہ میں تھا اس کے برابر صدقہ دیا جائے ۔ بالکل اسی طرح لفظ ’’نعل‘‘ جس چیز پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بولا ہے وہ کیا ہے ؟ کیسے ہے ؟ یہ کیسے پتہ چلے گا؟ یہ پتہ چلے گا حدیث کے ذریعے ۔ (۱)﴿حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ نَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃ عَنْ أَنَسٍ اَنَّ نَعَلَ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ لَہَا قِبَالاَنِ (۲) ﴿حدثنا ابو الولید الطیالسی نازہیر نا ابو الزبیر عن جابر قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا انْقَطَعَ شِسْعُ اَحَدِکُمْ فَلاَ یَمْشِیْ فِیْ نَعْلٍ وَاحِدَۃٍ حَتّٰی یُصْلِحَ شِسْعَہُ … الخ﴾(۲) احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ’’نعل‘‘ بند جوتے تسمے والے کو کہا جاتا ہے اور بولا گیا ہے جیسا کہ عربی زبان میں جوتے کی ایک قسم ’’سلیپرSleepe صلی اللہ علیہ وسلم کو مَدَاسَۃ ٌ ‘‘ کہا گیا ہے اور رومی بوٹ کو ’’کندرۃ‘‘ کہا گیا ہے ۔ سو ان دلائل سے واضح ہوا کہ یہ جوتے تسمے والے ہیں ۔ جن کو نبی علیہ السلام نے منع فرمایا کھڑے ہو کر پہننے سے؟ محمد افضل قلعہ دیدار سنگھ گوجرانوالہ 19/9/85 ج: جناب کا دوسرا مکتوب گرامی موصول ہوا جس میں آپ نے دو حدیثیں درج فرمائیں ہیں ۔ (۱)﴿اَنَّ نَعْلَ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ لَہَا قِبَالاَنِ﴾ (۲) ﴿إِذَا انْقَطَعَ شِسْعُ اَحَدِکُمْ﴾ اس کے بعد آپ لکھتے ہیں ’’احادیث سے