کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 47
پر ہے :﴿وَاللّٰهُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ﴾[1] [اور اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا بے انصافوں کو یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ کا یہ مطلب ہے یہ مطلب نہیں کہ جس کو چاہتا ہے بجبر واکراہ گمراہ بنا دیتا ہے جیسا کہ بعض نے سمجھ رکھا ہے ان دونوں باتوں کی دلیل قرآن مجید کی آیت﴿ لآ إِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ﴾ الآیۃ[2] [زبردستی نہیں دین کے معاملہ میں بے شک جدا ہو چکی ہے ہدایت گمراہی سے] بھی ہے ۔
اس کی مثال فراخی رزق اور تنگی رزق کا مسئلہ ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿اَللّٰه ُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرْ﴾[3]اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے اب کوئی اس کا یہ مطلب سمجھتا ہے کہ ایک انسان ناکارہ ہے کوئی کام کاج نہیں کرتا اور کام کاج کرنے کی صلاحیت واستعداد رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کرتا نہ ملازمت نہ تجارت نہ صناعت اور نہ ہی کوئی اور پیشہ تو اللہ تعالیٰ بزور اس کا رزق فراخ کر دیتا ہے ؟ اور ایک انسان ملازمت یا تجارت یا صناعت یا کسی اور کام کاج میں دن رات خون پسینہ ایک کیے ہوئے ہے تو اللہ تعالیٰ بزور اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں ۔ ورنہ تمام لوگ کام کاج چھوڑ کر ہاتھوں پر ہاتھ رکھے بیٹھ جائیں اور اسباب کا تعطل اور ان کی تعطیل لازم آئے ہاں یہ بات درست ہے بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی خاطر اسباب سے بے نیازی بھی دکھا دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت جس طرح مسببات پر محیط ہے بالکل اسی طرح اسباب پر بھی محیط ہے مگر ہدایت وضلالت یا کسی اور امر میں اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ۔﴿إِنَّ اللّٰهَ لاَ یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰکِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾[4] امید ہے آپ اتنی تفصیل سے مسئلہ سمجھ جائیں گے ان شاء اللہ سبحانہ وتعالیٰ ۲۲/۷/۱۴۱۸ھ
س: قرآن پاک میں ارشاد اللہ عزوجل ہے ۔ اور اگر جب اپنی جانوں پر ظلم کریں توتیرے حضور حاضر ہوں پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش چاہیں اور معافی مانگے ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بے شک اللہ عزوجل تو توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل قادر تھا گناہ بخش دے مگر ارشاد ہوتا ہے کہ توبہ قبول ہونا چاہو تو میرے پیارے کی سرکار میں حاضر ہو ۔
(۱) کیا یہ حکم اللہ عزوجل خاص دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود تھا یا قیامت تک کے مسلمانوں کو عام ہے ؟ اگر عام ہے تو پھر جو قبر انور پر حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے اپنے گناہوں کی معافی چاہے یہ جانتے ہوئے کہ میرے آقا میرے لیے اللہ عزوجل سے میرے گناہوں کی دعا کر رہے ہیں ۔
ایسا عقیدہ رکھنا شرک ہے یا قرآن پر عمل کر رہا ہے جو مجبوراً دور دراز ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا وہ کیسے
[1] [بقرۃ ۲۵۸پ۳]
[2] [بقرۃ ۲۵۶پ۳]
[3] [الرعد ۲۶ پ۱۳]
[4] [یونس ۴۴پ۱۱]