کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 460
اور مقصود ومراد یعنی فلاح وبہبود کی خاطر ہم قیادت وامارت والا نظام بنا رہے ہیں اس فلاح وبہبود کا طریقہ وذریعہ ازروئے اسلام کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اسلام کی ترجمانی صرف دو ہی چیزیں کرتی ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث ۔اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ فلاح وبہبود کا طریقہ وذریعہ ازروئے کتاب وسنت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری ہی ہے چنانچہ اس سلسلہ میں متعدد آیات کریمہ اور احادیث شریفہ موجود ہیں جنہیں طوالت سے بچتے ہوئے اس جگہ نقل نہیں کیا جا رہا ہے قرآن مجید اور کتب احادیث سے انہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ایک خاتون کو ملک یا جماعت کا سربراہ بنانے کی اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے یا نہیں ؟ اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتون کو سربراہ بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں فرمایا :﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ﴾ الخ مرد عورتوں پر قوام وحاکم ہیں اور صحیح بخاری [کتاب المغازی ۔ باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم إلی کسری وقیصر] میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْ أَمْرَہُمْ اِمْرَأَۃً﴾جن لوگوں نے اپنے امر کا والی کسی عورت کو بنا لیا وہ لوگ ہر گز فلاح وبہبود سے ہمکنار نہیں ہوں گے تو ان نصوص صریحہ کے ہوتے ہوئے وزیر موصوف یا کسی اور کا کہنا ’’کسی مسلمان ملک کی خاتون سربراہ بننے میں اسلام پابندی عائد نہیں کرتا‘‘ شدید قسم کی خطا ہے۔ کسی خاتون کے سربراہ نہ بن سکنے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی مرد کو خواہ وہ کیسا ہی ہو سربراہ بنا لیا جائے بلکہ اسلام نے مرد کے سربراہ بننے کے لیے پابندیاں عائد کی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں البتہ ان تمام پابندیوں کا خلاصہ ذکر کیے دیتا ہوں کہ ہر وہ مرد جو دینی ودنیاوی نظام کو بہ سے بہتر اور بہتر سے بہترین طرز پر چلانے کی صلاحیت وقابلیت سے مالا مال ہو اس مرد کو سربراہ بنایا جائے ۔ (۲) ملکہ سبا پر وزیر موصوف یا کوئی اور فخر کرتا ہے تو کرے انہیں اس فخر کرنے سے کوئی نہیں روکتا مگر اس فخر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں یہ کہنے کا حق حاصل ہو گیا کہ ’’وہ اسلام کے دور میں یمن کی ملکہ تھیں‘‘ قرآن مجید نے ملکہ سبا کا قصہ ذکر کیا ہے اس میں ملکہ سبا کے سلیمان علیہ السلام پر ایمان لانے سے پہلے ملکہ سبا ہونے کا تذکرہ ہے سلیمان علیہ السلام پر ایمان لانے کے بعد بھی وہ سبا کی ملکہ رہیں یا نہ اس سلسلہ میں کتاب وسنت خاموش ہیں اگر بالفرض ان کے سلیمان علیہ السلام پر ایمان لانے کے بعد بھی سبا کی ملکہ رہنے کا ثبوت مل جائے تو اس کو بطور حجت ودلیل پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ سلیمان علیہ السلام کی شریعت ہے اور ہم سیدنا خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پابند ہیں جس کی اوپر