کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 456
ج: شطرنج ناجائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :﴿کُلُّ شَیْئٍ یَلْہُوْ بِہِ الرَّجُلُ بَاطِلٌ اِلاَّ رَمْیَ الرَّجُلِ بِقَوْسِہِ وَتَأْدِیْبَہُ فَرَسَہُ وَمُلاَعَبَتَہُ اَہْلَہُ فَإِنَّہُنَّ مِنَ الْحَقِّ﴾1 [ہر وہ چیز جس کے ساتھ آدمی کھیلے وہ باطل ہے مگر اپنی کمان کے ساتھ تیر اندازی کرنا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا اور اپنی بیوی سے کھیلنا یہ چیزیں حق ہیں] محشی سید عبداللہ ہاشم یمانی لکھتے ہیں ’’رواہ ایضا احمد والاربعۃ وابن الجارود وابن حبان والحاکم وصححہ واقرہ الذہبی ۲/۱۲۴۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :﴿کُلُّ شَیْئٍ لَیْسَ مِنْ ذِکْرِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ (لَغْوٌوَّ) لَہْوٌ وَسَہْوٌ اِلاَّ اَرْبَعَ خِصَالٍ مَشْیَ الرَّجُلِ بَیْنَ الْغَرَضَیْنِ وَتَادِیْبَہُ فَرَسَہُ وَمُلاَعَبَتَہُ اَہْلَہُ وَتَعَلُّمَ السَّبَاحَۃِ﴾ [ہر وہ چیز جو اللہ عزوجل کے ذکر کے علاوہ ہے وہ لغو اور لہو اور سہو ہے مگر چار چیزیں دو نشانوں کے درمیان آدمی کا چلنا اور اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا اور اپنی بیوی سے کھیلنا اور تیراکی سیکھنا] اخرجہ النسائی فی کتاب عشرۃ النساء (ق ۷۴/۲) والزیادۃ لہ والطبرانی فی المعجم الکبیر (۱/۸۹/۲) وابو نعیم فی احادیث ابی القاسم الاصم (ق ۱۷/۱۸) من طریقین عن محمد بن سلمۃ عن ابی عبدالرحیم عن عبدالوہاب بن بخت عن عطاء بن ابی رباح قال رایت جابر بِن عَبْدِ اللّٰهِ وَجَابِر بْنَ عُمَیْرٍ الْاَنْصَارِیَیْنِ یَرْمِیَانِ فَحَلَّ اَحَدُہُمَا فَجَلَسَ فَقَالَ لَہُ الْآخَرُ کَسَلْتَ ؟ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ ِصلی اللّٰهُ علیہ وسلم فَذَکَرَہُ [عطاء سے ہے انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما اور جابر بن عمیر رضی اللہ عنہ انصاری کو دیکھا کہ وہ دونوں تیر اندازی کر رہے ہیں پس ان میں سے ایک تھک گیا اور بیٹھ گیا تو دوسرے نے کہا کہ تو سست پڑ گیا ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا اور پھر گزشتہ حدیث ذکر کی] قلت وہذا سند صحیح رجالہ ثقات رجال مسلم غیر عبدالوہاب بن بخت وہو ثقہ اتفاقا الخ 2 حافظ ابن حزم نے ان احادیث پر چند اعتراضات کیے ہیں جو ناقابل التفات ہیں ۔ تو ان احادیث سے ثابت ہوا شطرنج بھی جائز نہیں کیونکہ نہ تو یہ ذکر اللہ ہے اور نہ ہی اس کی اباحت کسی آیت یا حدیث سے ثابت ہے اور مذکورہ بالا احادیث کے عموم سے اس شطرنج کا ناجائز ہونا ہویدا ہے یاد رہے دوسری روایت میں لغو ولہو وسہو سے مراد باطل ہے جیسا کہ پہلی حدیث سے واضح ہے ۔ ھذا ما عندی و اللّٰه اعلم ۵/۷/۱۴۱۱ ھ س: محترمی ومکرمی جناب حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ