کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 439
نہیں آیا ’’کہ آپ نے اپنے اہل اور آل اور امت محمدیہ کی طرف سے قربانی کی‘‘ اس میں تو ذبح کے بعد اپنی ، آل محمد اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قبولیت کی دعا کا تذکرہ ہے ۔ علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دو دنبے قربانی کرنے والی روایات ثابت نہیں کیونکہ اس کی سند میں شریک نامی راوی کثرت خطا اور سوء حفظ کے باعث ضعیف ہیں اور ان کے شیخ ابوالحسناء مجہول ہیں ۔ رہا خطبہ حجۃ الوداع کا اقتباس ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اگلی اور پچھلی امت کی طرف سے یہ قربانی پیش کر رہا ہوں‘‘ تو وہ مجھے ابھی تک نہیں ملا ۔ رہے لفظ ’’اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّأُمَّتِہِ‘‘ الخ اور لفظ ’’اَللّٰہُمَّ ہٰذَا عَنِّی وَعَمَّنْ لَمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِیْ‘‘ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ آپ کے باقی تین چار سوال میت کی طرف سے قربانی کے ثبوت پر مبنی ہیں تو جب ثبوت کا حال معلوم ہو گیا تو یہ تین چار سوال خود بخود ختم ہو گئے ۔ واللہ اعلم ۱۴/۱/۱۴۱۹ ھ س: میت کی طرف سے وارث قربانی کر سکتے ہیں یا نہیں جو کہتے ہیں کر سکتے ہیں تو دلیل دیتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کی ہے دوسری دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی طرف سے بھی کی ہے ۔ جو کہتے ہیں کہ نہیں کر سکتے تو وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان مر جائے تو اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں ان احادیث کی تطبیق تحریر فرمادیں ؟ شبیر احمد خطیب نگری بالا۴ذوالقعدہ۱۴۱۶ ھ ج: زندہ کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح فرمائی تھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کے متعلق مجھے کوئی خاص صحیح حدیث معلوم نہیں ۔علی رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں شریک کثیر الغلط ہیں اور ان کے شیخ ابوالحسناء مجہول ہیں حدیث﴿إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ﴾1 [جب آدمی مر جاتا ہے اس کے عمل کا ثواب موقوف ہو جاتا ہے مگر تین عملوں کا ثواب باقی رہتا ہے] سے میت کی طرف سے اس کے وارثوں کے قربانی نہ کرنے یا نہ ہونے پر استدلال درست نہیں کیونکہ اس حدیث میں فوت ہونے والے کے اپنے عمل کے منقطع ہونے کا ذکر ہے ۔ ۵/۱۲/۱۴۱۶ ھ س: ہمارے علاقہ میں میت کی طرف سے قربانی کے مسئلہ پر کافی لے دے ہو رہی ہے اس مسئلہ کی شرعی حیثیت