کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 427
    سر ساہی مرلہ کنال   مریم کا حصہ مجموعی میت اول سے بحیثیت بیوی میت ثانی سے بحیثیت والدہ میت ثالث سے بحیثیت والدہ ۰ ۴ ۴ ۰ ۱۴ ۱۵ ۲۵ ۹ ۱۳  ۸ ______ ۹______۴۸   عائشہ کا حصہ مجموعی میت اول سے بحیثیت بیٹی میت ثانی سے بحیثیت بہن میت ثالث سے بحیثیت بہن ۳ ( ۸ ۳ ۳ ۱۰ ۲۹ ۱۲ ۲۷  ( ۲ ____ ۱۷ _____ ۶۸   حفصہ کا حصہ مجموعی میت اول سے بحیثیت بیٹی میت ثانی سے بحیثیت بہن میت ثالث سے بحیثیت بہن ۳ ( ۸ ۳ ۳ ۱۰ ۲۹ ۱۲ ۲۷  ( ۲ ____ ۱۷ _____ ۶۸  بشیر حصہ میت ثالث سے بحیثیت چچا    ۵______ ۱۵______۱۳   كل تركہ جو تقسیم ہو گیا    ۰ _____ ۰______ ۲۰۰ کنال یعنی ۲۵ ایکڑ  س: ایک آدمی ہے حاجی حبیب اللہ فوت ہو چکا ہے وہ تقریباً ستر ، اسّی ایکڑ زمین کا مالک تھا اس کی اولاد ہے۔ اولاد: ایک لڑکا ہے سیف اللہ ۔ دو لڑکیاں ایک خورشیدہ دوسری ہاجراں ۔ تینوں شادی شدہ ہیں۔ خورشید زندہ ہے یہ عورت لاولد ہے یعنی اولاد کوئی نہیں ہاجراں خود فوت ہو چکی ہے خاوند موجود ہے اس کے دو لڑکے ہیں عبداللہ ۔ شکیل ، ہاجراں کے لڑکے عبداللہ اور شکیل کو سیف اللہ اور خورشیدہ کی موجودگی میں وراثت ملتی ہے یا نہیں کیونکہ سیف اللہ لڑکا خورشیدہ دونوں زندہ ہیں یہ بہن بھائی دوسری بہن ہاجراں فوت ہو چکی ہے اس کے دو لڑکے عبداللہ ، شکیل موجود ہیں عنایت اللہ امین ضلع قصور ج: اما بعد خیریت موجود خیریت مطلوب ۔ جناب کا گرامی نامہ موصول ہوا اسے بغور پڑھا آپ نے جو صورت پیش کی وہ یہ ہے حاجی حبیب اللہ صاحب فوت ہو چکے ہیں ان کا ایک لڑکا ہے سیف اللہ دو لڑکیاں ہیں ایک ہاجراں جو فوت ہو چکی ہے اس کے دو لڑکے ہیں عبداللہ اور شکیل اور دوسری لڑکی خورشیدہ ہے جو زندہ اور لاولد ہے ۔ آپ نے وضاحت نہیں فرمائی ہاجراں اپنے والد حاجی حبیب اللہ صاحب کی وفات سے پہلے فوت ہوئی یا بعد اگر وہ پہلے فوت ہوئی ہے تو حاجی حبیب اللہ صاحب کے ترکہ میں اس کاکوئی حصہ نہیں اور نہ ہی اس کے دونوں لڑکوں کا اپنے نانا حبیب اللہ کی جائیداد میں کوئی حصہ ہے کیونکہ حاجی حبیب اللہ صاحب کا لڑکا سیف اللہ اور لڑکی خورشیدہ حاجی صاحب کے عصبہ ہیں صحیح بخاری۲/۹۹۷ میں ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا﴿اَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِاَہْلِہَا فَمَا بَقِیَ فَہُوَ لِاَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ﴾ [اصحاب الفرائض کو ان کا حق دو جو باقی بچے