کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 421
دو بیٹے اصل وتصحیح = ۶ ثانی ماں دو بہنیں چچا سدس ثلثان عصبہ باقی از اصل وتصحیح = ۱ ۴ ۱ از تصحیح مسئلتین= ۱۴ ۵۶ ۱۴ از ترکہ= 2-31/72 ایکڑ 9-13/18ایکڑ 2-31/72ایکڑ نیک دعاؤں میں یاد رکھیں ۔ تمام احباب واخوان کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش فرما دیں ۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اخوکم فی اللّٰه ومحبکم فی دین اللّٰه ابن عبدالحق بقلم۔ ۵/۶/۱۴۱۸ ھ ۔ سرفراز کالونی گوجرانوالہ جوابِ مکتوب از شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللّٰه تعالی محترم فاضل دوست محقق العصر مولانا حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اﷲ تعالی مدرس جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ ۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔ آپ کی توجہ فرمائی کا شکریہ ۔ میں سوال میں میت کی وراثت کی تقسیم سے قبل دو بیٹوں کی وفات یا میت سے قبل دو لڑکوں کی وفات کے الفاظ پر توجہ نہ دے سکا ۔ اس لیے میں نے دونوں لڑکوں کو وراثت سے محروم قرار دے دیا ۔ حالانکہ وہ وراثت کی تقسیم سے قبل فوت ہوئے ہیں نہ کہ میت سے قبل ۔ لہٰذا میت کے بعد فوت ہونے کی صورت میں مسئلہ مناسخہ ہی کا بنتا ہے جس کے مطابق آپ کی تقسیم صحیح ہے گویا یہاں اصل مغالطہ الفاظ کا ہوا ہے ورنہ مسئلہ وراثت میں ہمارا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ جزاکم اللّٰه خیرا ۔ والسلام طالب الدعوات اخوکم فی اللہ ثناء اللہ بن عیسیٰ خاں لاہور محترمی ومکرمی جناب الشیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی زید مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! امید ہے کہ مزاج گرامی بخیریت ہوں گے آپ کا موقر جریدہ الاعتصام جلد ۴۹۔ ۲۸ جمادی الثانیہ ۱۴۱۸ ھ ۳۱ اکتوبر ۱۹۹۷ میں ایک فتویٰ وراثت نظر سے گزرا جو نظر ثانی کے باوجود قابل توجہ ہے ۔ بندہ نے مجیب ثانی حضرت مولانا حافظ عبدالمنان صاحب کے جواب میں قابل توجہ الفاظ کے اوپر سرخ لکیر کھینچ کر ظاہر کیا ہے ۔ وہ یہ کہ میت اولیٰ کی وراثت کی تقسیم سے قبل جب ایک بیٹا فوت ہوگیا تو اس کا میراث چچا کو نہیں ملتا کیونکہ اس کا اپنا بھائی موجود ہے اور بھائی کی موجودگی میں چچا محجوب ہوتا ہے البتہ دوسرے بیٹے کی وفات کے بعد چچا