کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 399
کیا وہ گناہ گار ہیں ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں ۔ شکریہ حافظ عبدالمنان رنگ پورہ سیالکوٹ ج: آپ نے تحریر فرمایا ہے : ’’بہن نے آج سے تیس سال پہلے اپنا حصہ دونوں بھائیوں کے نام لگوا دیا تھا ۔ اپنی رضامندی سے‘‘ آپ کا کلام ختم ہوا ۔ اس کے بعد آپ خود ہی تحریر فرماتے ہیں ’’اب مذکورہ بہن اپنا حصہ جو دونوں بھائیوں کے نام لگوا دیا تھا وہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہے ‘‘ آپ کا کلام ختم ہوا ۔ بہن کے اب اپنا حصہ واپس لینے کا مطالبہ کرنے سے واضح ہو رہا ہے کہ آج سے تیس سال قبل بہن نے اپنا حصہ برضا ورغبت بھائیوں کے نام نہیں لگوایا تھا صرف معاشرہ کے دباؤ کے تحت وہ خاموش ہو گئی تھیں بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں نے اسے اس کی رضا مندی سمجھ لیا ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پہلے تو وہ اپنی رضامندی سے بھائیوں کے نام لگوائے اور اب تیس سال بعد واپس لینے کا مطالبہ شروع کر دے ؟ ان حالات میں زندہ بھائی اور فوت شدہ بھائی کی اولاد پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بہن کا حصہ واپس کریں ورنہ وہ فرض کے تارک اور گناہ گار ہوں گے اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں میراث کے مسائل بیان کرنے کے بعد فرمایا :﴿وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ1﴾ [جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے] ہاں اگر بہن نے واقعی اپنی رضا ورغبت کے ساتھ بلا کسی جبر واکراہ اور بغیر کسی معاشرتی دباؤ کے اپنا حصہ اپنے بھائیوں کو ہبہ کر دیا تھا اور ان کے نام بھی لگوایا تھا تو پھر وہ بہن اپنا حصہ نہ واپس لے سکتی ہے اور نہ ہی واپس لینے کا مطالبہ کر سکتی ہے بلکہ اگر بھائی اور بھتیجے اس کا حصہ اس کو واپس دیں تو بھی وہ نہیں لے سکتی کیونکہ وہ اپنا حصہ برضا ورغبت اپنے بھائیوں کو دے چکی ہے انہیں ہبہ کر چکی ہے ان کے نام لگوا چکی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْء الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْ ہِبَتِہِ کَالْکَلْبِ یَرْجِعُ فِیْ قَیْئِہِ2﴾ [ہم کو یہ بری مثال اپنے اوپر لانا پسند نہیں جو شخص ہبہ کر کے پھیر لے وہ کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اس کو چاٹے جاتا ہے] واللہ اعلم ۷/۶/۱۴۱۹ ھ س: ایک والد جو ابھی تک حیات ہے ۔ اس نے اپنا مکان اپنی دو بیٹیوں کے نام کروا دیا ہے ۔ اور بیٹوں کو کچھ نہیں دیا اور کہتا ہے کہ اگر تم نہیں لو گی تو میں کسی اور کو دے دوں گا اور کبھی بیٹوں کو نہیں دوں گا کیا اس صورت حال میں بیٹیاں وہ