کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 397
صورتوں میں جو فوت ہونے والے بیٹے کا حصہ بنے گا وہ اس بیٹے کے فوت ہونے کے بعد اس کے ترکہ میں شامل ہو گا اور ترکہ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰه﴾ کے مطابق تقسیم ہو گا اور ا س سے اس بیٹے کی بیوی اور اولاد کو بھی حصہ ملے گا اور اس کے والدین کو بھی حصہ ملے گا ۔ رہا ’’پوتے کا دادے کے ہوتے ہوئے وارث نہ ہونا ‘‘ تو وہ شریعت کا کوئی اصول نہیں البتہ ’’میت کے پوتے کا میت کے بیٹے (خواہ پوتے کا باپ ہو خواہ چچا یا تایا) کی موجودگی میں پوتا میت کا وارث نہیں ہوتا‘‘ شریعت کا اصول ہے ایسی صورت میں دادا اپنے پوتے کے لیے وصیت کرے قرآن مجید میں ہے﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرًانِالْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ﴾1 [فرض کر دیا گیا ہے تم پر جب حاضر ہو کسی کو تم میں موت بشرطیکہ چھوڑے کچھ مال وصیت کرنا ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے] (۳) نہیں ۔ ہاں اگر باپ مناسب سمجھے تو شریعت کے اصول کے مطابق ایسا کر سکتا ہے اولاد باپ کو تقسیم پر مجبور نہیں کر سکتی ۔ یاد رہے باپ کو بھی اولاد کے سلسلہ میں کتاب وسنت کی پابندی ضروری ہے اور اولاد کو بھی باپ کے سلسلہ میں کتاب وسنت کی پابندی ضروری ہے ۔ واللہ اعلم ۲۶/۱/۱۴۱۹ ھ س: تقریباً 1954 سے میں بطور پارٹنرز ستارہ فیکٹری کھیالی گیٹ گوجرانوالہ میں شامل تھا ۔ اس پارٹنرر شپ میں عبدالستار ، عبدالغفار ، محمد امین ، محمد یونس صاحبان برابر کے حصہ دار تھے ۔ بندہ کی 1983 میں ان سے علیحدگی ہو گئی ۔ اس ضمن میں میرے حصہ میں اس علیحدگی پر مجھے سمال اسٹیٹ میں ایک فیکٹری جس کا رقبہ دو کنال تھا ۔ بمع بلڈنگ اور مشینری وغیرہ حصہ میں ملی جس کی مالیت تقریباً سولہ لاکھ روپے بنتی تھی ۔ اور ایک عدد رہائشی مکان تعمیر شدہ وغیر تعمیر شدہ جس کے ساتھ سات عدد دکانیں بھی ہیں جس کی مالیت تقریباً دس لاکھ روپے تھی ملیں ۔ فیکٹری میں میں اور میرے بیٹے اکٹھے کام کرتے ہیں اوراسی طرح رہائش بھی ایک ہی مکان میں رکھتے ہیں اب میری علماء کرام سے گزارش ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائی جائے۔ کہ بندہ اب 1983 کی بنیاد پر تقسیم کرے یا موجودہ مارکیٹ کے حساب سے قیمت کے لحاظ سے تقسیم کی جائے ؟ عبدالستار 19/2/91 ج: جناب کا مکتوب گرامی موصول ہوا ۔ کتاب وسنت سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کی جائیداد کو