کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 396
بھی لیا جائے تو اس لیے کہ صورت مسؤلہ میں میراث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان :﴿وَمَا کَانَ مِنْ مِیْرَاثٍ أَدْرَکَہُ الْإِسْلاَمُ فَہُوَ عَلٰی قِسْمَۃِ الْإِسْلاَمِ﴾ کے مطابق اسلام کے میراث کے اصول پر تقسیم ہو گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان :﴿مَا کَانَ مِنْ مِیْرَاثٍ قُسِمَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ﴾ الخ کے مطابق جاہلیت کے قانون پر تقسیم نہیں ہو گی کیونکہ جاہلیت عامہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہی ختم ہو چکی ہے اور جاہلیت خاصہ بھی صورت مسؤلہ میں ختم ہے کیونکہ مورث اور وارث سب مسلمان ہیں لہٰذا والدہ کا بہنوں کے حصہ کو بھائی کے نام لگوانا خواہ کسی ملکی قانون کے تحت ہی کیوں نہ ہو سراسر غلط اور گناہ ہے جس کی اصلاح ضروری ہے بہنوں کو واپس دینے کی صورت میں ہو خواہ بہنوں کے ہبہ یا معاف کر دینے کی صورت میں ہو ۔ واللہ اعلم
۱۲/۶/۱۴۱۹ ھ
س: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں قرآن وسنت کی روشنی میں ۔
کیا باپ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کو اپنی اولاد میں﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ﴾ کے مطابق تقسیم کر کے خود محروم ہو سکتا ہے؟
اگر جائیداد تقسیم کر سکتا ہے اور باپ کی زندگی میں بیٹا فوت ہو جائے تو کیا اب جائیداد واپس باپ کو منتقل ہو گی یا میت کا بیٹا وصول کرے گا جبکہ پوتا دادے کے ہوتے ہوئے جائیداد کا وارث نہیں ہے ۔
(۳) کیا اولاد باپ کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنی جائیداد بیچ کر رقم کو اولاد میں تقسیم کردے ؟ ابو طلحہ بہاولنگر
ج: (۱)﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِیْٓ اَوْلاَدِکُمْ﴾ والے رکوع میں﴿مَا تَرَکَ﴾ اور﴿مِمَّا تَرَکَ﴾ کے الفاظ موجود ہیں نیز ترکہ کی حقیقت میں موت کے بعد چھوڑے ہوئے مال کی قید موجود ہے پھر میراث اور وراثت کے الفاظ بھی زندگی کے ختم ہونے کے بعد پر دلالت کر رہے ہیں تو ان دلائل کی بنا پر انسان اپنے مال کو اپنی اولاد یا دیگر وارثوں میں﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ الخ﴾ کے مطابق تقسیم نہیں کر سکتا ۔
ہاں صحیح بخاری میں مروی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو بطور عطیہ یا ہبہ دے سکتا ہے یاد رہے اس عطیہ اور ہبہ میں﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الاُنْثَیَیْنِ ﴾ والا اصول پیش نظر نہیں رکھا جائے گا کیونکہ یہ موت کے بعد میراث وترکہ میں ہے بلکہ زندگی میں اولاد کو عطیہ یا ہبہ کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کو برابر برابر دیا جائے گا ۔
(۲) زندگی میں جائیداد تقسیم کا حکم جواب نمبر۱ میں بیان ہو چکا ہے تو اب دیکھا جائے گا زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی گئی ہے اگر شریعت کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر مطابق نہیں تو اب اس کو شریعت کے مطابق بنا لیا جائے گا تو دونوں