کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 395
کے فوت ہو جانے کے بعد ان کے اس گناہ کا بوجھ ان سے اتارنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں ؟ حمیداں بیگم ج: صورت مسؤلہ میں آپ اور آپ کی بڑی بہن دونوں اپنے بھائی سے اپنا حصہ طلب کر سکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِیٓ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ﴾ 1[حکم کرتا ہے تم کو اللہ تمہاری اولاد کے حق میں کہ ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے] الآیۃ پھر آپ نے اور آپ کی بہن نے اپنا حصہ اپنے بھائی کو نہ ہبہ کیا ہے اور نہ ہی معاف کیا ہے اس لیے آپ کا اور آپ کی بہن کا اپنے حصہ کا مطالبہ درست ہے اور کتاب وسنت کے مطابق ہے اور آپ کے بھائی کا فرض ہے کہ وہ آپ کو اور آپ کی بہن کو دونوں کا حصہ واپس کر دے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ ، وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا﴾2 [مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے تھوڑا ہو یا زیادہ ہو حصہ مقرر کیا ہوا ہے]اس طرح بھائی بھی گناہ سے بچ جائے گا اور والدہ بھی بھائی کے نام لگوانے کے گناہ سے بچ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَیْنَہُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْہِ﴾3 [پھر جو کوئی خوف کرے وصیت کرنے والے سے طرف داری کا یا گناہ کا پھر ان میں باہم صلح کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں]تو تقسیم میراث میں تو بطریق اولیٰ اصلاح میں کوئی گناہ نہیں بلکہ گناہ سے بچاؤ ہے۔ ہاں بھائی اور والدہ گناہ سے اس صورت میں بھی بچ سکتے ہیں کہ دونوں بہنیں اپنا حصہ اب کے اپنے بھائی کو ہبہ یا معاف کر دیں وہ بھی اپنی رضا ورغبت سے بلا کسی جبر واکراہ اور بغیر کسی معاشرتی دباؤ کے تو بھی والدہ اور بھائی گناہ سے بچ جائیں گے ۔ ان شاء اللہ سبحانہ وتعالیٰ رہی ابن ماجہ کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث :﴿إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی للّٰهُ علیہ وسلم قَالَ : مَا کَانَ مِنْ مِیْرَاثٍ قُسِمَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَہُوَ عَلٰی قِسْمَۃِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَمَا کَانَ مِنْ مِیْرَاثٍ أَدْرَکَہُ الْإِسْلاَمُ فَہُوَ عَلٰی قِسْمَۃِ الْاِسْلاَمِ﴾4 [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میراث جاہلیت میں تقسیم کی گئی تو وہ جاہلیت کے طریقہ پر تقسیم ہو گئی اور جس میراث نے اسلام کو پا لیا وہ اسلام کے طریقہ پر تقسیم ہو گی] تو وہ بھائی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اولاً تو اس لیے کہ اس کی سند میں ابن لہیعہ نامی راوی ضعیف ہے کما فی الترمذی ۔ ثانیاً اگر دیگر شواہد کی بنیاد پر حدیث کو حسن لغیرہ تسلیم کر