کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 390
وَلاَ تَبِیْعُوْا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ اِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ وَلاَ تُشِفُّوْا بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ، وَلاَ تَبِیْعُوْا مِنْہَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ﴾ [سونا سونے کے بدل نہ بیچو مگر برابر برابر اور زیادہ کم مت بیچو اور چاندی کو چاندی کے بدل نہ بیچو مگر برابر برابر اور ایک طرف زیادہ دوسری طرف کم نہ ہو اور نہ ایک طرف ادھار دوسری طرف نقد]صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :﴿اَلذَّہَبُ بِالذَّہَبِ ، وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ الحدیث وفی آخرہ : ’’فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبٰی الْآخِذُ وَالْمُعْطِیْ فِیْہِ سَوَائٌ﴾ [سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے الحدیث اور اس کے آخر میں ہے کہ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا پس وہ سود میں پڑ گیا لینے والا اور دینے والا اس میں برابر ہیں] نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :﴿اَلذَّہَبُ بِالذَّہَبِ رِبًا إِلاَّ ہَائَ وَہَائَ ، وَالْوَرِقُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلاَّ ہَائَ وَہَائَ﴾ الحدیث [سونا سونے کے بدلے سود ہے مگر نقد ونقد اور چاندی چاندی کے بدلے سود ہے مگر نقد ونقد ]اور معلوم ہی ہے کہ سود حرام ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [اور حلال کیا اللہ نے بیع کو اور حرام کیا سود کو]
۲۵/۱۱/۱۴۱۹ ھ
س: ایک آدمی بائیس لاکھ کی دوکان خریدتا ہے نصف جس کے ۱۱ لاکھ ہوتے ہیں پانچ لاکھ بیعانہ دے دیتا ہے اور کچھ مدت کے بعد باقی دے دینے کا وعدہ کرتا ہے پوری کوشش کے باوجود باقی پیسے نہ دے سکا اس کے بعد دوکان والا اس کے پانچ لاکھ نہیں دے رہا اور کہتا ہے کہ اب دکان کی قیمت کم ہو گئی اس لیے میں آپ کے پانچ لاکھ دینے کا پابند نہ ہوں تمہارے پیسے ختم ہو گئے کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ۔ شکریہ سعید ولد بشیر احمد11/4/98
ج: مندرجہ بالا سوال کے صحیح ہونے کی صورت میں جواب حسب ذیل ہے بتوفیق اللّٰه سبحانہ وتعالیٰ وعونہ بیعانہ کی رقم مبلغ پانچ لاکھ مشتری کو واپس کرے شرعاً اس کو ضبط کرنے کا کوئی جواز نہیں باقی دوکان کی قیمت کا اب کم ہو جانا بیعانہ کی رقم کو ضبط کرنے کی شریعت میں کوئی وجہ جواز نہیں ۔ واللہ اعلم ۱۱/۱۲/۱۴۱۸ ھ
س: (۱) انتظامیہ مسجد کے لیے جو فنڈ اکٹھا کرتی ہے کیا اس میں سے خادم ، امام اور خطیب کو تنخواہ دینا جائز ہے یا نہیں ؟
(۲) امام مسجد اپنے مقتدیوں سے چرمہائے قربانی اکٹھے کر کے اپنی بیوی کا علاج کروا سکتا ہے جبکہ پہلے علاج کرواتے کرواتے مقروض ہو گیا ہے ۔ عبدالغفور
ج: (۱) انتظامیہ نے اگر دو کھاتے بنا رکھے ہیں مسجد کے لیے الگ اور خادم ، امام اور خطیب کی تنخواہ کے لیے الگ تو پھر مسجد کے کھاتے سے خادم ، امام اور خطیب کو تنخواہ نہیں دے سکتے اور اگر انتظامیہ نے دو الگ الگ کھاتے نہیں بنائے