کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 385
کرتے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے1] ۳/۱۲/۱۴۱۹ ھ س: جناب میرا گاؤں میرے دفتر سے ۳۰ کلو میٹر دور ہے ۔ جہاں پہنچنے تک میرا کرایہ بیس روپے لگتا ہے آپ کو بتایا ہے میں طالب علم بھی ہوں ۔ ایک بجے تک ملازمت کرتا ہوں ۔ اور پھر وہیں پر ٹیوشن پڑھتا ہوں۔ دونوں کام کرتا ہوں اگر میں کرایہ بھی دوں تو ساری تنخواہ کرایوں میں نکل جاتی ہے میں طالب بھی ہوں ۔ اگر کنڈیکٹر کو Student کہوں تو کیا یہ میرا جھوٹ تو نہیں ہے ۔ اس کے متعلق میری رہنمائی کریں۔ ج: (۱) آپ نے لکھا ہے ’’جہاں پہنچنے تک میرا کرایہ بیس روپے لگتا ہے ‘‘ یہ کرایہ یکطرفہ ہو تو ماہانہ چھ سو روپے یکطرفہ اور بارہ سو روپے ماہانہ دو طرفہ بنتے ہیں اگر یہ کرایہ دو طرفہ ہے تو چھ سو روپے ماہانہ دو طرف بنتے ہیں صورت کوئی بھی ہو آپ کا لکھنا ’’تو ساری تنخواہ کرایوں میں نکل جاتی ہے‘‘ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی کیونکہ آپ کی تنخواہ بہرحال بارہ سو روپے سے تو زائد ہی ہے ۔ اگر آپ واقعی وہ سٹوڈنٹ ہیں جس کو گورنمنٹ نے بذریعہ کارڈ تخفیف کرایہ والی رعایت دے رکھی ہے تو آپ کا کنڈیکٹر کو سٹوڈنٹ کہنا اور اس کا ثبوت مہیا کرنا جھوٹ نہیں ورنہ جھوٹ ہے ۔ ۲۶/۶/۱۴۲۰ ھ س: عرض خدمت ہے کہ جب سے طاغوت کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بصیرت سے نوازا ہے اپنے کام کے بارے میں دل مطمئن نہیں ہوتا ۔ ہمارے کام (کاروبار) وثیقہ نویسی اور اسٹام فروشی کی تفصیل یہ ہے کہ وثیقہ نویسی سے مراد تو ان دو فریقین کے درمیان جو معاملہ خریدوفروخت ، شراکت ، کرایہ داری یا ٹھیکہ داری میں طے پایا اس کو عدل کے ساتھ تحریر کر دینا ہے ۔ مگر دوسری طرف اسٹام فروشی کا معاملہ ہے جس میں حکومت (ضلع کے ڈپٹی کمشنر) کی طرف سے ہمیں ایک لائسنس جاری ہوتا ہے جس کے تحت ہم ان کے لائسنس دار اسٹام فروش بن جاتے ہیں ۔ اور گورنمنٹ ہمیں اپنا ملازم سمجھتی ہے ۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اس لائسنس اسٹام فروشی کے تحت ہم سٹمپ پیپرز خریدتے ہیں ۔ جس پر ہمیں ۳ فیصد کے حساب سے کمیشن ملتا ہے ۔ یہ سٹمپ پیپرز زیادہ تر جائیداد کی خریدوفروخت کے کام آتے ہیں ۔ یعنی مذکورہ سٹمپ پیپرز جائیداد اور زمینوں کی خریدوفروخت پر موجودہ (طاغوت) حکومت کاٹیکس ہے ۔ جس کو جمع کروا کے ہم اس طاغوتی حکومت کے اس ٹیکس