کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 381
میں سے بکر کو یا اپنے والدین کو بھیجتا ہے کیا وہ پیسے بکر اور اس کے والدین کے لیے حلال ہیں یا حرام ؟ (اس بات کا علم نہیں ہے کہ بکر کا بھائی اپنی ملازمت احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے یا نہیں اگرچہ گمان یہی ہے کہ وہ ملازمت ذمہ داری سے انجام دیتا ہے) (۳) بنک میں غیر سودی اکاؤنٹ میں پیسہ رکھوانا جائز ہے یا نہیں جبکہ گھر میں پیسہ رکھنے سے چوری ہونے کا کوئی خاص خطرہ نہ ہو ۔ (۴) زید بیرون ملک سے بنک کے ذریعے بکر کے اکاونٹ میں کچھ رقم بھیجتا ہے کیا یہ جائز ہے نیز یہ رقم بکر کے لیے حلال ہے یا بنک کے ذریعہ ٹرانسفر ہونے کی وجہ سے حرام ہے ؟ (۵) زید کے پاس کچھ روپے رزق حلال کے ہیں ۔ ان میں اس نے کچھ روپے حرام کمائی کے بھی ملا دئیے اب تمام روپے باہم مل گئے کیا کسی طریقہ سے یہ ممکن ہے کہ حلال روپوں کو حرام روپوں سے الگ کیا جا سکے؟ (۶) زید کے بنک اکاونٹ میں ۵۰۰ روپے تھے جو کہ حرام کی کمائی سے تھے بکر نے بیرون ملک سے کچھ پیسے بنک کے ذریعے اس کے اکاونٹ میں بھجوا دئیے یہ پیسے حلال کی کمائی سے تھے ۔ اب زید اپنے اکاونٹ سے یہ نیت کر کے پیسے نکلواتا ہے کہ وہ حلال کمائی والے پیسے نکلوا رہا ہے کیا یہ پیسے حلال ہوں گے یا اکاونٹ میں حرام پیسوں کی وجہ سے ساری رقم حرام ہو جائے گی ؟ محمد شہباز ج: ( ۱) اگر اصل تنخواہ دینے والوں کو تنخواہ دار کی ان کوتاہیوں کا علم ہے اس کے باوجود بلا رشوت دئیے اور بلا کسی سازباز کے وہ اس کو تنخواہ پوری دے رہے ہیں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کرتے تو بلاشبہ وہ تنخواہ اس کے لیے حلال ہے ورنہ چالیس فیصد حرام باقی حلال ۔ (۲) غلط بیانی اپنی جگہ جرم ہے اس سے وہ توبہ کرے باقی وہاں ملازمت کی تنخواہ حلال ہے بشرطیکہ اس کو حرام بنانے والی کوئی وجہ موجود نہ ہو ۔ (۳) جائز نہیں کیونکہ یہ سراسر اثم وعدوان میں تعاون ہے :﴿وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (۴) بکر کے لیے بیرون ملک سے بھیجی ہوئی رقم حلال ہے بشرطیکہ وہ بیرون ملک میں کسب حلال ہو البتہ بکر بنک میں اکاونٹ رکھنے کی وجہ سے مجرم وگناہگار ہے ۔ (۵) جتنے روپے حرام کے ملائے ہیں اتنے الگ کر دیں اور وہ جس کے ہیں اس کے حوالے کر دیں ۔