کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 378
[دھوکہ کی مشنری اور حسرت انگیز] چیزیں ناجائز ہیں ان کا کاروبار ناجائز ہے اور ان کی مرمت بھی ناجائز ہے ۔ واللہ اعلم ۲۱/۱۰/۱۴۱۸ ھ س: مسئلہ احتکار کی تفہیم کے لیے آپ کی رہنمائی مطلوب ہے ۔ وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں : (۱)احتکار کسے کہتے ہیں اور کیا احتکار ہر قسم کا ہر قسم کے حالات میں ناجائز ہے ؟ براہ کرم دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں ۔ ایک مفتی صاحب سے اسی سلسلہ میں رابطہ ہوا تھا ۔ انہوں نے فرمایا کہ اموال تجارت کو روک رکھنا اس غرض سے کہ جب اور مہنگائی ہو گی تو بیچیں گے جبکہ قحط کی صورت پیدا ہو چکی ہو انہوں نے مزید صراحت فرمائی کہ اگر قحط کی کیفیت پیدا نہ ہوئی ہو تو پھر احتکار ناجائز نہ ہو گا یعنی انہوں نے قحط برپا ہونے سے پہلے پہلے احتکار کو جائز قرار دیا ہے ممانعت احتکار کا اطلاق بصورت قحط ہو گا ۔ اور قحط کی تعریف یہ بیان کی کسی چیز کا بازار میں ناپید ہونا قحط ہے نہ کہ ایسی حالت پر قحط کا اطلاق ہو گا کہ چیز بازار میں کھلے عام مل تو رہی ہے اگرچہ نرخ نہایت بڑھتے جا رہے ہوں ان صاحب سے دلیل طلب کی کہ احادیث مبارکہ سے ممانعت احتکار اپنے عموم پر ثابت ہوتی ہے آپ اس عموم کی تخصیص قحط کے زمانہ کے ساتھ کس قرینہ سے اخذ کرتے ہیں ۔ تو انہوں نے اپنے موقف کے حق میں عقلی دلائل دئیے اور شارحین کے قول بیان فرمائیے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر بجا ۔ لیکن ہمیں تو اتنا علم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر یا نہی سے وجوب ثابت ہوتا ہے تاوقتیکہ کوئی قرینہ صارفہ خارجی یا داخلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو وجوب سے نہ نکال دیوے یا وجوب کی تخصیص ثابت نہ ہوجائے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے جو وجوب ثابت ہو گا وہ اپنے عموم پر ہی محمول کیا جائے گا چاہے ہماری عقل مانے یا نہ مانے ۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے چیزیں جہاں سے خریدی جائیں وہیں نہ بیچی جائیں یعنی خرید کردہ جگہ سے مال ہٹا دینا ضروری ہے ۔ اس مسئلہ کی وضاحت بھی درکار ہے ۔ مثلاً ایک شخص کی منڈی میں دوکان ہے باہر سے مال فروخت کے لیے اس کی دوکان پر آتا ہے دو صورتیں ہوتی ہیں یا تو مالک دوکان مذکورہ مال خود خرید لیتا ہے آگے بیچنے کے لیے یا کوئی دوسرا سوداگر مال خرید لیتا ہے آگے بیچنے کے لیے اب دوکان دار یا آڑھتی اگر خود خریدتا ہے تو بیچنے کے لیے کہاں منتقل کرے یا پھر اگر کوئی دوسرا سوداگر خریدتا ہے دوکان ہذا سے تو کیا بیچنے سے پہلے اپنے گھر لے کر جائے ؟ یا دوکان ہذا کے ساتھ والی دوکان پر لیجا کر فروخت کر سکتا ہے ؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا دوکان ہذا پر ہی دوچار فٹ آگے پیچھے کر لینے سے مذکورہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل ہو جائے گا ؟ ایک مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ خرید کردہ مال اپنے مقام سے ہٹا دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مال پر اچھی طرح قبضہ