کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 369
بِالشَّعِیْرِ رِبًا إِلاَّ ہَآئَ وَہَآئَ ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلاَّ ہَآئَ وَہَآئَ﴾[1] گندم گندم کے بدلے سود ہے مگر برابر برابر نقد بنقد اور جو جو کے بدلے سود ہے مگر برابر برابر نقد بنقد اور کھجور کھجور کے بدلے سود ہے مگر برابر برابر نقد بنقد ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ جنس کے لین دین میں بھی سود ہوتا ہے ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے مذکور فرمان ’’جس نے ایک بیع میں دو بیعیں کیں تو اس کے لیے ان دونوں میں سے کم ہے یا سود‘‘ اس امر کی دلیل ہے کہ پیسے اور جنس کے لین دین میں بھی سود ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں نہ تو پیسے کی تخصیص فرمائی ہے اور نہ ہی جنس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تینوں صورتوں کو شامل ہے ۔
اور دوسرا شبہ ہے ’’آپ نے ایک پلاٹ لاکھ روپے میں خریدا ایک سال بعد آپ کا وہی پلاٹ سوا لاکھ میں فروخت ہوتا ہے آیا وہ اوپر والی رقم کیا سود ہو گی ؟ جو یقیناً نہیں ہے اسی طرح وہ اس کو کاروباری منافع سمجھتے ہیں اور جائز قرار دیتے ہیں‘‘ اس شبہ میں ’’ایک سال بعد‘‘ والی بات بالکل بے معنی ہے کیونکہ بسا اوقات آدمی ایک پلاٹ لاکھ میں خریدتا ہے اور خرید لینے کے فوراً بعد اس کو اسی پلاٹ کا سوا لاکھ دینے والے موجود ہوتے ہیں ۔ دراصل یہ شبہ وہی ہے جس کا قرآن مجید نے رد کر دیا ہے :﴿ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوْآ إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ [یہ اس لیے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ تجارت اور سود ایک سے ہیں حالانکہ اللہ نے تجارت کو جائز کیا ہے اور سود کو حرام] [2]
رہی کاروباری منافع والی بات تو معلوم ہونا چاہیے کہ ہر کاروباری نفع شریعت میں جائز نہیں کیونکہ سود بھی کاروباری نفع ہے مگر شریعت نے اس کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے تو پلاٹ لاکھ میں خرید کر اسی وقت یا سال بعد سوا لاکھ میں بیچنا سود نہیں جس طرح کوئی چیز دس روپے میں خرید کر اسی وقت یا سال بعد بارہ روپے میں فروخت کرنا سود نہیں بلکہ یہ حلال اور جائز بیع ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ﴾ جبکہ ادھار کی وجہ سے زائد قیمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان :﴿مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُہُمَا أَوِ الرِّبَا﴾ میں سود قرار دیا ہے اس لیے یہ نفع محض اس لیے کہ کاروباری ہے جائز نہیں ہو گا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سود کے زمرہ میں آتا ہے تو سود والے حرام نفع کو حلال بیع سے حاصل شدہ حلال نفع پر قیاس کرنا درست نہیں اس کی مثال ایسے سمجھیں جیسے کوئی خمر وشراب کی تجارت یا خنزیر کی تجارت سے حاصل شدہ نفع کو شربت بزوری شربت بنفشہ یا گائے بیل کی تجارت سے
[1] [صحیح بخاری ج۱ ص۲۹۰ باب بیع التمر بالتمر]
[2] البقرۃ ۲۷۵ پ۳