کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 368
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید وفروخت کی وہ سب صورتیں حرام فرما دی ہیں جن میں سود کی آمیزش ہے ان میں سے ایک صورت وہ ہے جو ترمذی کی صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ﴿نَہٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ﴾ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا ۔ اس کی تشریح اہل علم یہ فرماتے ہیں کہ اگر تم نقد لو تو اتنی قیمت ہے اور اگر ادھار لو تو اور قیمت ہے ۔ مثلاً نقد دس روپے کی ہے اور ادھار پندرہ روپے ۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے مگر اس کے منع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ وہ نقد لے گا یا ادھار ۔ اگر پہلے طے کر لے کہ میں تمہیں نقد دوں گا یا ادھار دوں گا تو جائز ہے اصل سبب ایک قیمت کا معلوم اور متعین نہ ہونا ہے ۔ اگر معلوم ہو جائے کہ نقد لینا ہے اسے دس روپے میں دے تو ٹھیک ہے یا طے ہو جائے کہ ادھار لینا ہے اور پندرہ روپے میں دے تب بھی ٹھیک ہے یہ رائے کئی جید علماء بھی دیتے ہیں انہوں نے اسے جائز قرار دیا ہے قسطوں پر چیز زیادہ قیمت کے ساتھ فروخت کرنے کو بھی انہوں نے جائز قرار دیا ہے مثلاً ایک چیز نقد لاکھ روپے کی اور قسطوں پر سوا لاکھ کی بشرطیکہ پہلے طے ہو جائے نقد لینی ہے یا ادھار لینی ہے ۔
میرے بھائیو ! جہاں تک میں نے احادیث کا مطالعہ کیا ہے اور پڑھا ہے ان علماء کی بات درست نہیں کیونکہ ابوداود شریف میں یہی حدیث تفصیل کے ساتھ آئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :﴿مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْ کَسُہُمَا أَوِ الرِّبَا﴾ جو شخص ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے یا تو کم قیمت لے یا پھر وہ سود ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس بیع کی حرمت کا اصل سبب سود ہے قیمت کا غیر متعین ہونا نہیں ہے آپ غور کریں اور دانائی سے سمجھنے کی کوشش کریں کسی شخص کو اگر آج قیمت ملے تو دس روپے کی چیز دیتا ہے اور اگر ایک ماہ بعد قیمت ملتی ہے تو وہ پندرہ روپے کی دیتا ہے وہ پانچ روپے زائد کس چیز کے لے رہا ہے صاف ظاہر ہے اس نے وہ پانچ روپے مدت کے عوض لیے ہیں اور یہی سود ہے‘‘ حافظ صاحب کا کلام ختم ہوا ۔
رہے دو شبہے تو ان سے پہلا شبہ ہے : ’’سود پیسے کے لین دین میں ہوتا ہے اس میں ایک طرف جنس ہے اور دوسری طرف روپے‘‘ یہ شبہ بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ سود پیسے کے لین دین میں بھی ہوتا ہے ، جنس کے لین دین میں بھی اور جنس وپیسے کے لین دین میں بھی ۔ قرآن مجید کی کسی آیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ سود صرف پیسے کے لین دین میں ہوتا ہے جنس کے لین دین اور جنس وپیسے کے لین دین میں سود نہیں ہوتا ۔
بلکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :﴿وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلاَّ ہَآئَ وَہَآئَ ، وَالشَّعِیْرُ