کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 367
کتابچہ پڑھ کر اور متاثر ہو کر بیمہ کرا کر پھنس گیا تھا مگر گذشتہ سال ۱۹۹۶ء؁ کے مجلہ میں سے ایک مجلہ میں سوال وجواب کے کالم میں بیمہ کے بارے میں جواب ملا پھر اس کے بعد میں نے اس کمپنی کو چھوڑ دیا اور الحمد ﷲ کافی سے زیادہ مطمئن ہوں ۔ جناب حافظ صاحب آپ بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اللہ آپ کو مزید توفیق دے (آمین) ایک اسی نوعیت کے مسئلہ کے حل کے بارے میں آپ کو زحمت دینی تھی میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس طرح کا مکمل جواب عنایت فرما کر مزید زیادہ شاکر ہونے کا موقع دیں گے ۔ (۱)ہمارے علاقہ کے آڑھتی صاحب اور بڑے زمیندار لوگ چھوٹے اور غریب کسانوں کو کھاد اور زرعی ادویات فصل کے قرضہ پر دیتے ہیں ان کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہوتا ہے ہے کہ مثلاً اگر ایک گٹو کھاد کا نقد روپے دے کر خریدا جائے تو اس کے وہ /۳۰۰ روپے وصول کریں گے اور اگر ادھار یعنی موجودہ فصل کاٹ کر آپ کو رقم لوٹا دیں گے جوکہ پانچ چھ ماہ کا عرصہ ہوتا ہے تو وہ اس کسان کے کھاتہ میں /۳۵۰ روپے وصول کرتے ہیں اسی طرح زرعی ادویہ کا ہے کہ اگر ایک لیٹر کی دوا /۵۰۰ روپے نقد ہے تو ادھار میں وہی دوا /۶۵۰ روپے کی ملتی ہے آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ آیا کہ یہ جو اضافی رقم ادھار کے ساتھ وصول کرتے ہیں کیا یہ مجبوری سے فائدہ اٹھا کر (سود) میں شامل نہیں ہو جاتی ۔ جبکہ ان سے بحث کرنے پر وہ کہتے ہیں کہ (سود) پیسے کے لین دین میں ہوتا ہے اس میں ایک طرف جنس ہے اور دوسری طرف روپے ۔ اس کی مثال وہ ایک پلاٹ کی دیتے ہیں کہ آپ نے ایک پلاٹ لاکھ میں خریدا ایک سال بعد آپ کا وہی پلاٹ سوا لاکھ میں فروخت ہوتا ہے آیا وہ اوپر والی رقم کیا سود ہو گی ۔ جو یقینا نہیں ہے اس طرح وہ اس کو کاروباری منافع سمجھتے ہیں اور جائز قرار دیتے ہیں ہمارے امام مسجد صاحب سے معلوم کیا انہوں نے اس کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ زیادتی منافع ہے سود نہیں ہے اسلام میں بیع جائز ہے نہ کہ سود ۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس معاملہ میں میری ضرور رہنمائی فرمائیں گے ؟ اللہ آپ کو جزائے خیر کثیر عطا فرمائے (آمین) (۲) قسطوں والے کاروبار کی اسلام میں کیا نوعیت ہے وہ بھی اسی طرح ایک ہزار کی چیز قسط وار کچھ عرصہ بعد چودہ سو میں واپسی ہوتی ہے ۔ بشیر رزاق 25/4/97 ج: آپ کا مکتوب موصول ہوا جس میں دو سوال اور دو شبہے مذکور ہیں ان دونوں کا جواب مجلہ الدعوۃ ۷/۶ مورخہ صفر ۱۴۱۷ ھ میں حافظ عبدالسلام صاحب بھٹوی حفظہ اللہ تبارک وتعالیٰ دے چکے ہیں چنانچہ وہ مذکور بالا شمارہ کے ص۲۲ پر لکھتے ہیں ۔