کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 366
اباحی ذہن نہیں رکھتے نیز پکے سچے مسلم ہیں اس لیے یہی فرمائیں گے ہم ان چیزوں سے فائدہ نہیں لیں گے کیونکہ دین فطرت اسلام نے ان چیزوں سے منع فرما دیا ہے باقی رہا ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ممالک یا کسی ایک ملک کا ان سے فائدہ لینا سو وہ ہمارے لیے سند جواز نہیں ہمارے لیے سند ودلیل صرف اور صرف کتاب وسنت ہے﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ﴾ الآیۃ [پھر اگر کسی معاملے میں تم میں جھگڑا پڑے تو اس کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیرو] [1] تو بات بالکل واضح ہے کہ سود بیمہ یا سود غیر بیمہ سے ترقی یافتہ ممالک یا غیر ترقی یافتہ ممالک فائدہ لیں خواہ نہ لیں ہم اس کاروبار سے فائدہ نہیں لے سکتے کیونکہ کتاب وسنت نے اس کاروبار کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ خمر وخنزیر کی تجارت سے کوئی ترقی یافتہ ملک فائدہ لے یا نہ لے ہم خمر وخنزیر کی تجارت والا کاروبار نہیں کر سکتے اس لیے کہ کتاب وسنت نے اس کاروبار کو حرام قرار دیا ہے ۔ واللہ اعلم ۲۱/۸/۱۴۱۷ ھ س: ۲۸ مارچ ۱۹۹۲ء؁ بروز ہفتہ روز نامہ جنگ کراچی کی خبر ہے کہ انشورنش کا کاروبار اور پریمیم حرام نہیں مسلم اسکالروں کے بورڈ کا فتویٰ بورڈ سعودی عرب ، مصر ، سوڈان اور دیگر ممالک کے اسکالروں پر مشتمل ہے اس کی وضاحت فرمائیں ؟ سید راشد ج: آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا جس میں جنگ اخبار کا ایک تراشہ ہے اس تراشے میں ایک سرخی ہے ’’انشورنش کا کاروبار اور پریمیم حرام نہیں ۔ مسلم اسکالروں کے بورڈ کا فتویٰ‘‘ مگر نیچے اس بورڈ کے فتویٰ کا متن نقل نہیں کیا گیا اس لیے جب تک اس کا متن اپنی اصلی حالت میں سامنے نہ آئے اس وقت تک اس فتویٰ کے درست یا نا درست ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا باقی اخبار کی سرخی کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اخبار والے عام طور پر سرخیوں میں اصل بات کو خراب کرتے رہتے ہیں ۔ رہا انشورنش کا کاروبار اور پریمیم تو وہ حرام ہے اس کے حرام ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں کیونکہ اس میں سود یا جوا پایا جاتا ہے جبکہ سود اور جوا دونوں شریعت میں حرام ہیں ۔ واللہ اعلم ۲۸/۵/۱۴۱۹ ھ س: آپ کا مضمون نما مکمل اور مدلل جواب مارچ ۹۷ کے مجلہ میں پڑھا جو کہ اسٹیٹ لائف انشورنش کمپنی کے بارے میں تھا ۔ آج سے کوئی سات آٹھ سال قبل میں بھی اسی طرح کے دلائل اور کئی ایک مولانا کے بیانات سے بھرا ہوا
[1] [النساء ۵۹پ۵]