کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 363
کرتا ہے تو اس نیک نیتی کی بنا پر اس کی یہ وطی حق ودرست نہیں بنے گی بلکہ زنا کی زنا ہی رہے گی بالکل اسی طرح بیمہ کی صورت میں ’’پسماندگان میت کی فائدہ رسانی مقصود نیت نیک ہونے اور سود خوری وسودخورانی مقصود نہ ہونے‘‘ سے سود حق ودرست نہیں بنے گا بلکہ حرام کا حرام ہی رہے گا قرآن مجید میں ہے :﴿وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ [اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے] حدیث میں ہے :﴿دِرْہَمُ رِبًا یَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ اَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلاَثِیْنَ زِنْیَۃً﴾ [سود کا ایک درہم جس کو کوئی آدمی کھاتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے چھتیس مرتبہ زناکرنے سے زیادہ سخت ہے] [1]
حدیث :﴿إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ﴾ کے آخری حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ذکر فرمایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘ میں مراد اعمال صالحہ ہیں اور معلوم ہے کہ سود اعمال صالحہ میں شامل نہیں اعمال سیئہ میں شامل ہے لہٰذا نیک نیتی والی بات اس اثناء میں پیش کرنی بے محل ہے ۔ اللہ تعالیٰ واقعی مفسد اور مصلح کو خوب جانتا ہے اسی لیے اس نے فرمایا ﴿وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ نیز فرمایا﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا﴾ مزید فرمایا﴿وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ [2]تو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ سود نہ چھوڑنے والے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ ولڑائی کر رہے ہیں اور واضح ہے ایسے لوگ مفسد ہی ہو سکتے ہیں مصلح نہیں ہو سکتے نیت خواہ وہ کتنی ہی نیک بنا لیں ۔
پھر بیمہ کمپنیوں کے بیمہ نہ کرانے والوں کے مرنے کے بعد ان کے وارثوں کو کچھ نہ دینے سے ان کی ’’پسماندگان میت کی فائدہ رسانی مقصود ہے جو نیک نیت ہے سود خوری اور سود خورانی مقصود نہیں‘‘ والی بات کا بھرم بھی کھل جاتا ہے۔
(۲) ادارہ سودی کاروبار ہی کرتا ہے ادارے نے سود ہی کا نام منافع یا بونس رکھا ہوا ہے پھر کسی کاروبار کے حق درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کاروبار شرعاً حلال ہو کوئی بھی کاروبار اس وجہ سے حق ودرست نہیں بن پاتا کہ وہ کاروبار ہے دیکھئے خمر وخنزیر کی تجارت بھی کاروبار ہے مگر وہ کاروبار ہونے کی وجہ سے جائز ودرست نہیں ہو پاتی کیونکہ خمر وخنزیر کی تجارت شرعاً حرام ہے ۔
(۳) چونکہ یہ منافع سود کے زمرہ میں شامل ہے اس لیے ناجائز ہے۔
(۴) موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خمر وخنزیر کی تجارت انسان کی ضرورت کا ذریعہ ہو سکتا ہے پھر کاروبار عصمت
[1] مشکوۃ باب الربا
[2] [البقرۃ ۲۷۸۔۲۷۹ پ۳]