کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 362
(۱)یہ کرانے والا کچھ رقم دیتا ہے اور مقررہ مدت کے درمیان فوت ہو جائے تو مقررہ رقم ورثا کو ملتی ہے ۔ پسماندگان میت کی فائدہ رسانی مقصود ہے جو نیت نیک ہے سود خوری اور سود خورانی مقصود نہیں ہوتی ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے جو کہ اللہ تعالیٰ مفسد اور مصلح کو خوب جانتا ہے ۔ (۲)چونکہ لگائی گئی رقم سے ادارہ کاروبار کرتا ہے اور کاروبار کا منافع یا بونس بیمہ دار کو ملتا ہے جیسے ایک آدمی کچھ رقم کسی کو دے دیتا ہے اور کاروبار میں حصہ ڈال دیتا ہے اور مناسب منافع لیتا ہے ۔ (۳)چونکہ رقم اقساط کی صورت میں دے کر بمنافع مدت گذرنے پر وصول کر لی جاتی ہے ۔ (۴)موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیمہ انسان کی ضرورت کا ذریعہ ہو سکتا ہے ۔ (۵)بچت کر کے رقم ۔ بچوں کے لیے مستقبل حالات کے لیے رکھی جاتی ہے اور اسی قسم کو ادارہ استعمال کر کے منافع کی صورت میں لوٹا دیتا ہے ۔ جس کی شرح فکس (لازم) نہیں ہے ۔ (۶)چونکہ بنکاری نظام میں نفع ونقصان کی شراکت سے کاروبار ہوتا ہے ۔ جبکہ اس ادارے نے بھی یہ کاروبار کر رکھا ہے مگر بنک کی شرح فیصد فکس ہے ۔ جبکہ اسٹیٹ لائف انشورنش (بیمہ زندگی) کے کاروبار میں شرح فکس نہیں ہے ۔ (۷)یہ جوا نہیں ہے نہ پرائز بانڈ سسٹم ہے ۔ نہ لاٹری ہے ۔ یہ سب دلائل محکمہ انشورنش کی جانب سے دئیے گئے ۔ بیمہ زندگی کا کاروبار ناجائز ہونے کی صورت میں عقلی دلائل اور فقہی رو سے مفصّل تحریر فرما کر جواب سے مستفیض فرمائیں ؟ اطہر منیرضلع اوکاڑہ ج: آپ کا مکتوب موصول ہوا جناب کے نقل کردہ دلائل کے جواب ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں بتوفیق اللہ تبارک وتعالیٰ وعونہ (۱) کسی عمل کے حق ودرست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتاب وسنت کے موافق ، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری پر مشتمل ہو قرآن مجید میں ہے :﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوْا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْآ اَعْمَالَکُمْ﴾ [اے مسلمانو ! تم اللہ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ کیا کرو] [1]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ[2] [جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے امر (شریعت) میں موجود نہیں وہ مردود ہے] صرف نیت کے نیک ہونے سے عمل حق ودرست نہیں بنتا مثلاً کوئی آدمی کسی بیوہ کی جنسی خواہش پوری کرنے کی نیت سے اس کے مطالبہ پر اس کے ساتھ وطی
[1] [محمد ۳۳ پ۲۶] [2] صحیح مسلم [صحیح بخاری کتاب البیوع ۔ ج۱ ص۲۸۷]