کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 358
سود کو پھر جس کو پہنچی نصیحت اپنے رب کی طرف سے] [1]
(۲) روپے کی قیمت میں کمی کوئی لازمی وضروری امر نہیں کبھی اس کی قیمت میں اضافہ بھی تو ہو سکتا ہے سعودی عرب کو ہی لے لیجئے اس کے سکہ کی قیمت آج سے کوئی تیس سال قبل کیا تھی اور آج کیا ہے ؟ پھر افراط زر کی وجہ سے جو ایک ہزار زید نے بکر کو قرض دیا ہے صرف اس ایک ہزار میں ہی کمی نہیں آئی بلکہ جو زید نے اپنے پاس پیسے رکھے ہوئے ہیں ان میں بھی تو کمی آ گئی ہے تو جو ایک ہزار اس نے بکر کو دیا ہے اگر وہ اس کو نہ دیتا اپنے پاس ہی رکھتا تو بھی اس میں کمی آ جانا تھی ۔
(۳) مضاربت میں اعتماد مضارب کی امانت ، دیانت اور ثقاہت پر ہوتا ہے اس شرط میں یہ خدشہ ہے کہ مضارب خسارہ ونقصان کی صورت میں بھی ربح ونفع ہی ظاہر کرے اور رب المال کے پیسے اپنے پاس رکھنے کے لیے یہ بوجھ اپنے سر لیتا جائے تو معاملہ آ جا کر ربا تک ہی پہنچ جائے ۔ واللہ اعلم ۲۸/۶/۱۴۱۳ ھ
س: کیا کرایہ پر مکان لینا یا دینا جائز ہے ؟ محمد سلیم ڈار نارووال 19/4/93
ج: مکان کرایہ پر لینا دینا درست ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زمین کرایہ پر لی دی جاتی تھی جیسا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث میں بیان ہوا ہے دیکھیں بخاری ومسلم ۔ ۵/۱/۱۴۱۴ ھ
س: ٹیلی فون کرنے کے لیے یہاں سکے اور کارڈ استعمال ہوتے ہیں حکومتی اداروں سے سکے اور کارڈ پورے پورے پیسوں سے دستیاب ہوتے ہیں جبکہ عمومی دوکاندار دس ریال کے نو سکے اور ایک سو دس ریال کا سو ریال والا کارڈ دیتے ہیں نو سکوں کا معاملہ تو واضح ہے کہ سود ہے آیا کارڈ جو سو میں ملتا ہے اور اس سے سو ریال کا ہی فون ہوتا ہے ایک سو دس کا لینا سود ہو گا جبکہ وہ عین ریال (ورقی) نہیں نہ ہی سکے ہیں ؟ خالد جاوید الریاض
ج: سو ریال والے بطاقہ فون کو ایک سو دس ریال میں خریدنے کا حکم وہی ہے جو نو سکوں کو دس ریال میں خریدنے کا حکم ہے مقصد ہے کہ دونوں سود ہی کی صورتیں ہیں دلیل حکومتی اداروں کا سو ریال والے بطاقہ کو سو ریال ہی میں دینا ہے بچنے کی تدبیر یہ ہے کہ حکومتی اداروں ہی سے خریدیں نجی اداروں اور دکانداروں سے نہ خریدیں ۔ ۲۱/۱۱/۱۴۱۷ ھ
[1] [البقرۃ ۲۷۵ پ۳]