کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 356
[سودی اضافے اور اچھی ادائیگی میں فرق یہ ہے کہ سودی اضافہ تو سود ہی ہوتا ہے اور اچھی ادائیگی کبھی سود ہوتی ہے اور کبھی نہیں اور یہ فرق اس وقت ہے جب اچھی ادائیگی میں سود نہ ہونے کی شرط نہ ہو اور جب شرط ہو تو اس وقت فرق یہ ہو گا کہ سودی اضافہ سود ہو گا اور اچھی ادائیگی سود نہ ہو گا ۔ اور آپ کا یہ سوال کیا یہ شرط ہے کہ اضافہ کا مطالبہ معاملہ کے وقت مشروط ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ شرط نہیں ہے] س: روپے کی قیمت میں کمی واقع ہو رہی ہے اگر کوئی آدمی کسی سے قرض مانگے اور دائن مدیون سے اضافہ کا مطالبہ بھی نہ کرے لیکن کچھ مدت کے بعد وہی رقم واپس لے تو رقم میں کمی واقع ہو جائے گی اور دائن کو نقصان ہو گا کیونکہ کرنسی کا معیار گر گیا دنیا میں معیار دولت سونا ہی گنا جاتا ہے مثال کے طور پر آج کوئی آدمی دوسرے کو /۵۰۰۰ روپے دیتا ہے جو آج کا ریٹ ایک تولہ سونا تصور کریں تو دس یا بیس سال بعد اس ایک تولہ کی قیمت اگر /۱۰۰۰۰ روپیہ ہو جائے تو مدیون سے اگر اس ایک ہی تولہ کے برابر قیمت کے لحاظ سے /۵۰۰۰ کی بجائے /۱۰۰۰۰ لے لیں تو کیا اس میں کوئی حرج ہے کیونکہ اگر آج وہ ایک تولہ سونا خریدے گا تو اسے /۵۰۰۰ کا نقصان ہو گا اس لیے کہ آج اسے /۰۰ ۱۰۰ میں تولہ سونا ملے گا ۔ اس مسئلہ کی تفصیل سے وضاحت فرما دیں؟ منظور احمد سندھو ج: کرنسی نوٹ جتنے دائن نے مدیون کو دئیے اتنے ہی وصول کرے یا کچھ معاف کر کے کم وصول کرے خواہ کرنسی نوٹ کی قیمت میں کمی ہی واقع ہو چکی ہو یا بیشی اور اگر مدیون کو دئیے ہوئے کرنسی نوٹ سے زیادہ وصول کئے جائیں تو یہ سود ہو گا جو حرام ہے ۔ دیکھئے ایک شخص ایک آدمی کو ایک تولہ سونا بطور قرض دیتا ہے سال بعد اس سے وصول کرتا ہے تو ایک تولہ ہی وصول کرے گا خواہ اس کی قیمت میں کمی ہو چکی ہو یا بیشی اور اگر ایک تولہ سے زیادہ سونا وصول کرے گا تو یہ سود ہو گا حسن قضاء کی بعض صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک آدمی ایک سو کرنسی نوٹ اپنے گھر محفوظ رکھتا ہے کسی کو بطور قرض نہیں دیتا سال بعد ۶ فیصد کمی ہو جاتی ہے اب وہ کیا کرے گا ؟ اب وہ ۱۰۶ کس سے لے گا ؟ ظاہر بات ہے وہ صبر وشکر ہی کرے گا اسی طرح کسی نے اپنے گھر پانچ ہزار روپیہ رکھا ہوا ہے تو سال بعد ۶ فیصد کمی کی صورت میں وہ ۵۳۰۰ روپیہ کس سے لے گا ؟ ضروری نہیں کہ کرنسی نوٹ کی قیمت میں ہمیشہ کمی ہی واقع ہو کسی وقت بیشی بھی ہو سکتی ہے تو پھر آپ کے اصول کے تحت ۶ فیصد بیشی کی صورت میں دائن کو مدیون سے ۵۰۰۰ کی بجائے ۴۷۰۰ روپے وصول کرنے چاہیں اسی طرح آج کوئی ایک تولہ سونا کسی کو بطور قرض دیتا ہے جبکہ اس کی قیمت ۵۰۰۰ فی تولہ ہے کچھ عرصہ بعد سونے کی قیمت ۱۰۰۰۰ فی تولہ ہو جاتی ہے اب مدیون دائن کو2/1تولہ دے کیونکہ اس کی قیمت اب ۵۰۰۰ ہے جو قرض لینے کے وقت ایک تولہ