کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 354
لینے دینے پر مشتمل ہے اور سود لینا دینا حرام ہے اور کرنٹ اس لیے ناجائز ہے کہ اس میں رقم جمع کرانے والا سودی کاروبار میں زبردست تعاون کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ [اور مددگاری کرو اوپر بھلائی کے اور پرہیزگاری کے اور مت مددگاری کرو اوپر گناہ کے اور ظلم کے] [1]کرنٹ والے کی رقم بنک والے دوسروں کو دے کر ان سے سود وصول کریں گے لہٰذا یہ کرنٹ والا ان کا معاون ٹھہرا جبکہ گناہ کے کاموں میں تعاون کرنے سے اللہ تعالیٰ منع فرما رہے ہیں ۔ ۲/۷/۱۴۲۰ھ س: سود کی تعریف کریں حدیث مبارکہ میں تو بار بار سونا چاندی گندم جو کھجور نمک ان چھ چیزوں کی کمی بیشی نقد یا ادھار منع ہے لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے مثلاً مویشی کے بدلے مویشی لینا دینا اونٹ کے بدلے دو اونٹ لیے دیے گئے لیکن کچھ لوگ ان ہی چھ چیزوں کو سود کی تعریف میں لاتے ہیں باقی سب چیزیں مستثنیٰ ہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم سونا چاندی اور کھانے کی ان چیزوں کے لیے ہے جن کا لین دین وزن اور پیمانہ سے ہوتا ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے یہ حکم مخصوص ہے ان چیزوں کے ساتھ جو غذا کے کام آتی ہیں اور ذخیرہ کر کے رکھی جاتی ہیں ان میں علت تحریم درہم دینار کا وزن ہے یہ امام مالک کا مذہب ہے اور بعض کہتے ہیں کہ قیمت اس کی علت ہے علت کے اس اختلاف کی وجہ سے معاملات کے اندر اہل علم کا اختلاف ہو گیا ہے۔ موطا کی ایک حدیث ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ کے بدلے ۲۰ بیس اونٹ لیے اور ایک مدت کے بعد لیے۔ جانوروں کے تبادلہ میں کمی بیشی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور بعد میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے کی کیونکہ جانوروں کی قدروقیمت میں بڑا فرق ہوتا ہے محترم حافظ صاحب ان تمام چیزوں کی وضاحت فرما دیں ؟ ڈاکٹر منظور احمد گوجرانوالہ ج: آپ نے سود کی تعریف پوچھی ہے تو محترم مجھے سود کی تعریف کتاب وسنت میں نہیں ملی جیسے زنا ہے اس کی تعریف بھی کتاب وسنت میں مجھے کہیں نہیں ملی البتہ دونوں کی حرمت کتاب وسنت میں جابجا مذکور ہے چھ چیزوں میں جو علل اہل علم نے بیان فرمائی ہیں ان میں سے جو علت بھی موجود ہو سود بن جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علل میں سے کسی ایک کی تخصیص نہیں فرمائی جو صورتیں آپ کو سود میں شامل نظر آتی ہیں مگر حدیث میں ان کی حلت ثابت ہو چکی ہے وہ سود میں شامل نہیں یا حکم سود سے مستثنیٰ ہیں ۔ واللہ اعلم ۱۲/۹/۱۴۱۴ ھ
[1] [المائدۃ ۲ پ۶]