کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 353
کتاب البیوع …… خرید و فروخت کے مسائل س: (۱) سود کی تعریف اور اقسام؟ (۲) سو نقد½1 سو ادھار کی حیثیت کیا ہے ؟ (۳) قسطوں پر لی چیز کی حیثیت کیا جائز ہے یا نہیں ؟ (۴) سرکاری ملازمین کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ بنکوں کے ذریعے ملتی ہے اور بنک میں اکاؤنٹ کے بغیر نہیں رقم ملتی آیا وہ جائز ہے یا نہیں ؟ ابو عبدالقدوس فیصل آباد ج: (۱) سود وربا کی تعریف تو مجھے کتاب وسنت میں کہیں نہیں ملی البتہ اس کے ناجائز اور حرام ہونے پر دلالت کرنے والی نصوص کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں ۔ ہاں اس کی اقسام کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان﴿ثَلاَ ثَۃٌ وَّسَبَعُوْنَ بَابًا﴾ [سود کے تہتر (۷۳) درجے ہیں ان کا معمولی یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے نکاح کرے اور سب سے بڑا سود مسلمان کی عزت تباہ کرنا ہے] [1] (۲) ایک چیز کی بیع نقد سو میں اور ادھار سوا سو میں ہو تو نقد سو درست اور ادھار سوا سو سود ہے ابوداود میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْ کَسُہُمَا أَوِ الرِّبَا﴾ [جو شخص ایک بیع میں دو سودے کرے تو اس کے لیے کم تر قیمت والا سودا ہے یا سود ہے] [2] (۳) قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی قیمت جو قسطوں میں ادا کرنی ہے نقد والی ہے تو درست اور جائز ۔ اور اگر قسطوں میں ادا کی جانے والی قیمت نقد قیمت سے زائد ہو تو سود وحرام ہے دلیل پہلے لکھ چکا ہوں ابوداود والی حدیث :﴿مَن بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْ کَسُہُمَا أَوِ الرِّبَا﴾ [جو ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے پس اس کے لیے دونوں سے کم ہے یا پھر سود ہے] (۴) سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین جس کام پر ملازمت کر رہے ہیں اگر وہ کام شرعاً درست اور جائز ہے تو ان کی ملازمت وتنخواہ بھی جائز اور درست ہے اور اگر وہ کام شرعا درست اور جائز نہیں تو ان کی ملازمت وتنخواہ بھی جائز اور درست نہیں۔ رہا سودی بنکوں میں اکاؤنٹ تو وہ جائز نہیں خواہ سیونگ ہو خواہ کرنٹ ۔ سیونگ کا ناجائز ہونا تو واضح ہے کہ وہ سود
[1] [سنن ابن ماجہ ابواب التجارات ۔ باب التغلیظ فی الربو] [2] [سنن ابی داود کتاب البیوع ۔ باب فی من باع بیعتین فی بیعۃ]