کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 346
ج: اس صورت میں ایک رجعی طلاق واقع ہو چکی ہے ۔ عدت کے اندر رجوع بلا تجدید نکاح اور عدت کے بعد نیا نکاح درست ہے صحیح مسلم میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہکے زمانہ میں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے ابتدائی دو سال میں تین طلاقیں ایک طلاق ہوا کرتی تھیں الخ اور قرآن مجید میں ہے :﴿وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْآ اِصْلاَحًا﴾ [اور خاوند ان کے بہت حقدار ہیں ساتھ پھیر لینے ان کے بیچ اس کے اگر چاہیں صلح کرنا]﴿وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں عدت اپنی کو پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہوں آپس میں ساتھ اچھی طرح کے]۲/۷/۱۴۱۲ ھ
س: الاول : (الرَّجُلُ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ بِلَفْظٍ اَنْتِ بَائِنٌ فَہَلْ یُعَدُّ ہٰذَا اللَّفْظُ (اَی اَنْتِ بَائِنٌ) طَلاَقًا بَائِنًا اَوْ طَلاَقًا رَجْعِیًّا(
اَلْمَسْأَلَۃُ الثَّانِیَۃُ : اَلرَّجُلُ یُرْسِلُ اِلٰی امْرَأَتِہٖ رُقْعَۃً یَکْتُبُ فِیْہَا لَفْظَ اَنْتِ طَالِقٌ فَبَعْدَ مُدَّۃٍ مَثَلاً بَعْدَ اُسْبُوْعٍ زَعَمَ اَنَّ رُقْعَتَہُ الْمُرْسَلَۃَ اِلٰی زَوْجَتِۃِ مَا بَلَغَتْ اِلَیْہَا فَکَتَبَ اِلَیْہَا رُقْعَۃً اُخْرٰی کَتَبَ فِیْہَا اَنْتِ طَالِقٌ وَمَا اَرَادَ بِاَنْتِ طَالِقٌ ثَانٍ تَجْدِیْدَ الطَّلاَقِ بَلِ الْمُرَادُ مِنْہَا الَّتِیْ کُتِبَتْ فِی الرُّقْعَۃِ الْمُرْسَلَۃِ قَبْلَ ہٰذِہِ الْاُسْبُوْعِ ثُمَّ ظَنَّ اَنَّ ہٰذِہِ الرُّقْعَۃَ مَا بَلَغَتْ اِلَیْہَا فَکَتَبَ اِلَیْہَا رُقْعَۃً بَعْدَ اُسْبُوْعٍ فِیْہَا اَنْتِ طَالِقٌ وَمَا اَرَادَ بِہٰذِہِ الْجُمْلَۃِ اِلاَّ الَّتِیْ کَتَبَہَا فِیْ اَوَّلِ الرُّقْعَۃِ ہَلْ یُعَدُّ الطَّلاَقُ بِہٰذِہِ الطَّرِیْقَۃِ وَاحِدًا رَجْعِیًّا اَوْ ثَلاَثًا محمود الحسن
[الاول : ایک آدمی اپنی بیوی کو اَنْتِ بَائِنٌ کے لفظ سے طلاق دیتا ہے کیا اس لفظ سے دی گئی طلاق بائن ہو گی یا طلاق رجعی ؟
الثانی : ایک آدمی اپنی بیوی کو ایک رقعہ بھیجتا ہے اور اس میں اَنْتِ طَالِقٌ کا لفظ لکھتا ہے تو کچھ مدت کے بعد مثلاً ایک ہفتہ کے بعد وہ سمجھتا ہے کہ اس کا بھیجا ہوا رقعہ اس کی بیوی تک نہیں پہنچا پھر وہ اس کی طرف دوسرا رقعہ لکھتا ہے جس میں اَنْتِ طَالِقٌ لکھتا ہے اور وہ دوسرے اَنْتِ طَالِقٌ سے نئی طلاق کا ارادہ نہیں کرتا ۔ بلکہ دوسرے رقعہ سے مراد پہلی طلاق ہی ہے جو ایک ہفتہ پہلے بھیجی گئی ہے پھر وہ سمجھتا ہے کہ یہ رقعہ اس کو نہیں ملا تو ایک ہفتہ کے بعد وہ تیسرا رقعہ لکھ کر بھیج دیتا ہے اس میں اَنْتِ طَالِقٌ لکھتا ہے اور اس جملہ سے اس کی مراد وہی ہے جو پہلے رقعہ میں لکھا تھا کیا اس طریقہ سے دی