کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 343
دونوں قولوں کے مطابق خاوند اکٹھی دو طلاقیں دینے کے وقت سے لے کر عدت کے اندر گواہوں کے روبرو رجوع کر سکتا ہے اور عدت گذر جانے کے بعد تجدید نکاح کر سکتا ہے۔ اور اگر اکٹھی دو طلاق دینے کے وقت نو ماہ قبل دی ہوئی طلاق کی عدت ختم ہو چکی تھی تو یہ دونوں اکٹھی دی ہوئی طلاقیں کالعدم ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ پہلی طلاق کی عدت ختم ہونے پر نکاح ٹوٹ چکا تھا اور نکاح ٹوٹ جانے کے بعد یا نکاح منعقد ہونے سے قبل طلاق کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں تو اس صورت میں طلاق صرف ایک واقع ہوئی ہے عدت چونکہ ختم ہو چکی ہے اس لیے اب خاوند تجدید نکاح کر سکتا ہے واللہ اعلم تمام احباب واخوان کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش فرما دیں ۔ ۲۴/۱۱/۱۴۱۸ ھ س: ایک آدمی نے مورخہ ۹۱۔۱۔۲۲ کو اپنی زوجہ کو ایک ہی مجلس میں یکبارگی تین طلاقیں دے دی تھیں۔ اب اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے جبکہ بیوی اپنے والدین کے گھر تب سے رہ رہی ہے ۔میری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ’’مسئلہ رجوع‘‘ واضح کیجئے ؟ ج: آ پ کی مسؤلہ صورت میں ایک طلاق واقع ہو چکی ہے کیونکہ یکبارگی تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی ہے صحیح مسلم جلد اول ص۴۷۷ میں ہے﴿عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ الطَّلاَقُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی للّٰهُ علیہ وسلم ، وَأَبِیْ بَکْرٍ ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلاَفَۃِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَۃٌ﴾ (الحدیث) تین طلاقیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال ایک ہی طلاق ہوتی تھی ۔ ایک طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع بلا نکاح درست ہے﴿وَبُعُوْلَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ إِنْ أَرَادُوْآ إِصْلاَحًا[1] [اور خاوند ان کے بہت حقدار ہیں ساتھ پھیر لینے ان کے کے بیچ اس کے اگر چاہیں صلح کرنا] الآیۃ اور ایک طلاق کے بعد عدت گذر جائے تو اسی بیوی سے نیا نکاح درست ہے﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ أَنْ یَّنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ[2] [اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں عدت اپنی کو پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہوں آپس میں ساتھ اچھی طرح کے]الآیۃ ۔صورت مسؤلہ میں طلاق ۹۱ میں دی گئی اب ۹۹ ہے ظاہر ہے عدت تو گذر چکی ہے لہٰذا میاں بیوی اب باہمی رضامندی کے ساتھ شروط نکاح کی پابندی میں نیا نکاح کر سکتے ہیں ۔ ۲۴/۱/۱۴۲۰ ھ
[1] [البقرۃ ۲۲۸ پ۲] [2] [البقرۃ ۲۳۲]