کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 337
ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو دہلیز بدلنے کا حکم دینے والا واقعہ بھی اس مسئلہ پر دال ہے ۔ ۵/۱۲/۱۴۱۲ ھ
س: ایک آدمی اپنی بیوی اور سالی کو باجیاں کہہ (باجی) کر پکارتا ہے اور پھر کہتا ہے میں ایک باجی کو ادھر پھینک دوں اور دوسری باجی کو اُدھر پھینک دوں اس بات پر ’’ظہار‘‘ واقع ہوتا ہے کہ نہیں مہربانی وضاحت فرما دیں ؟ عین نوازش ہو گی؟ محمد علی
ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوٰی﴾ ہر آدمی کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی تو اگر صورت مسؤلہ میں درج الفاظ بارادئہ ظہار کہے گئے ہیں تو پھر یہ ظہار ہے ۔ ھذا ما عندی و اللّٰه اعلم ۱۵/۵/۱۴۱۵ ھ
س: (۱) کیا دوسری طلاق رجوع کے بغیر ہو جاتی ہے کہ نہیں نیز یہ بھی بتائیں کہ دوسری طلاق کتنے دن کے بعد دی جائے تو ہو جائے گی ؟ (دلیل بیان کریں)
(۲) اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق دیتا ہے اور عدت بھی گزر گئی تو پھر عدت کے گذر جانے کے بعد وہ آدمی دوسری اور تیسری طلاق دے دیتا ہے تو کیا تیسری طلاق واقع ہو جائے گی کہ نہیں ؟ عبدالغفور شاہدرہ
ج: (۱) پہلی طلاق کے بعد وقفہ کے ساتھ دی ہوئی دوسری طلاق دوسری ہی ہو جاتی ہے رجوع کے ساتھ ہو خواہ رجوع کے بغیر ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿الطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ الخ﴾ یہ فرمان دونوں طلاقوں کے درمیان رجوع ہونے اور نہ ہونے والی دونوں صورتوں کو شامل ہے اس آیت کریمہ کو دونوں طلاقوں کے درمیان رجوع ہونے والی صورت کے ساتھ مخصوص قرار دینے یا مخصوص ہونے کی کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں پھر دونوں طلاقوں کے درمیانی وقفے کی دنوں ، راتوں ، گھنٹوں اور منٹوں میں تعیین کتاب وسنت میں کہیں وارد نہیں ہوئی البتہ اتنی بات شریعت سے ثابت ہوتی ہے کہ یکبارگی دو یا تین یا زیادہ طلاقیں ایک ہی طلاق شمار کی جائیں گی ۔
(۲) ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی اس طلاق کی عدت گذر جانے کے بعد دوسری اور تیسری طلاق دیتا ہے تو پہلی طلاق کی عدت گذر جانے کے بعد دی ہوئی دوسری اور تیسری دونوں طلاقیں واقع نہیں ہوں گی کیونکہ پہلی طلاق کی عدت گذر جانے پہ وہ عورت اس شخص کے نکاح میں نہیں رہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ أَنْ یَّنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ ۲۱/۸/۱۴۱۹ ھ