کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 334
س: (۱) طلاق خلع : یہ کیا چیز ہے کیا خلع کے لیے مرد کی رضامندی ضروری ہے یا عورت اپنی مرضی سے خلع لے سکتی ہے کیا کیا شرائط ہیں ذرا تفصیل سے خلع کے بارہ میں روشنی ڈالیں ؟
(۲) فسخ نکاح : ہمارے مذہب میں اس کی کیا حیثیت اور کیا طریقہ کار ہے کب تنسیخ نکاح ہوتی ہے اور کیا خلع تنسیخ نکاح ہے ؟
محمد حسن عسکری کراچی28/11/94
ج: آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا قلت فرصت کی بنا پر آپ کی مطلوب تفصیل سے قاصر ہوں۔ اختصاراً گذارش ہے کہ خلع مجرد عن الطلاق صحیح قول کے مطابق فسخ ہوتا ہے نیز خلع میں خاوند بیوی دونوں کی رضا ضروری ہے فسخ نکاح کی کئی صورتیں ہیں ان میں خیار بلوغ یا کسی اور وجہ سے قاضی کا نکاح توڑنا بھی شامل ہے ۔ واللہ اعلم ۳/۷/۱۴۱۵ ھ
س: ایک عورت کو طلاق بتہ یعنی تین شرعی طلاقیں ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے ساتھ اپنے دونوں بچے بھی لے جاتی ہے جو اس کے طلاق دینے والے خاوند کے بستر پر پیدا ہوئے تھے اب جب خاوند نے عدالت میں بچوں کا مطالبہ کیا تو عورت نے تحریراً یہ کہہ دیا کہ یہ شخص حرامی بچوں کا باپ یعنی یہ بچے اس کے نہیں ہیں کیا شریعت اس عورت کو خاوند سے ان بچوں کا خرچہ دلوائے گی یا نہیں اگر خاوند بھی اس عورت کے اعتراف کی وجہ سے یہ کہہ دے کہ چلو اگر یہ کہتی ہے کہ بچے میرے نہیں تو میں بھی دستبردار ہوتا ہوں ۔ اس صورت میں عورت خرچہ مانگنے کی مجاز ہے یا نہیں ۔ اس سلسلے میں دو حدیثیں بظاہر مجھے متضاد نظر آتی ہیں۔ ایک تطبیق اور صحیح مسئلہ سے روشناس فرمادیں ؟
(۱)﴿اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ﴾ [1] [اولاد بستر والے کے لیے اور زانی کے لیے پتھر]
(۲) لعان والی حدیث وہاں یہ لفظ ہیں :﴿وَاَلْحَقَ الْوَلَدَ بِاُمِّہٖ﴾ [2] [اور اولاد کو ماں کے ساتھ ملایا] محمد طیب گجر پورہ لاہور
ج: ’’اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ‘‘ عام ہے ولد ملاعنہ کو بھی شامل ہے لیکن دوسری حدیث خاص ’’وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّہٖ‘‘ کے ساتھ اس عام کی تخصیص ہو گئی ہے اور اصول ہے ’’ وَالْخَاصُ لاَ یُعَارِضُ الْعَامَ بَلْ یُبْنَی الْعَامُ عَلَی الْخَاص‘‘ [خاص عام کے معارض نہیں ہوتا بلکہ عام کی بنیاد خاص پر ہوتی ہے]جو واقعہ آپ نے ذکر کیا ہے وہ لعان والی صورت ہے ہی نہیں ۔ واللہ اعلم ۸/۷/۱۴۱۳ ھ
س: ایک آدمی اپنی بیوی کو لکھ کر طلاق دیتا ہے لیکن وہ طلاق اس کو نہیں پہنچی عورت کی لا علمی کی بنا پر عورت کو طلاق ہو
[1] [مشکوۃ ۔ کتاب النکاح ۔ باب اللعان]
[2] [متفق علیہ ۔ مشکوۃ باب اللعان ۔ الفصل الاول]