کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 332
طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع بلا نکاح جدید یا بانکاح جدید نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عدت کے بعد نکاح جدید ہو سکتا ہے﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ أَنْ یَّتَرَاجَعَآ إِنْ ظَنَّآ أَنْ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰه﴾ الآیۃ [حتی کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے اب اگر دوسرا خاوند اس کو طلاق دے دے تو پہلا خاوند اور یہ بیوی آپس میں ملاپ کر سکتے ہیں اگر دونوں یہ سمجھیں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے] [1]
ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک طلاق دے جب عدت ختم ہونے کو ہو تو دوسری طلاق دے پھر اس دوسری طلاق کی عدت جب ختم ہونے کو ہو تو تیسری طلاق دے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ [2] [رجعی طلاق دوبار ہے پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے ]نیز آیت کریمہ ہے :﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ [اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں وقت اپنے کو پس بند رکھو ان کو ساتھ اچھی طرح کے یا نکال دو ان کو ساتھ اچھی طرح کے ] [3]حدیث میں تسریح کی تفسیر طلاق وارد ہوئی ہے ۔
(۴) مطلقہ بالغہ غیر آئسہ اور غیر حاملہ کی عدت تین حیض ہے طلاق خواہ پہلی ہو خواہ دوسری ہو خواہ تیسری ہو ۔﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوْئٍ﴾ [طلاق دی گئی عورتیں تین حیض انتظار کریں] [4]
(۵) اس کا جواب نمبر۳ میں آ چکا ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ یہ صورت بھی درست اور صحیح ہے ۔
(۶) حدیث میں اس کی تفسیر طہر قبل از حیض یا حمل وارد ہوئی ہے ۔
(۷)اس کا جواب نمبر ۳ اور نمبر۵ میں بیان ہو چکا ہے ۔ واللہ اعلم ۲۳/۱۱/۱۴۱۴ ھ
س: ایک عورت کی شادی ہوئی اس کے پانچ بچے بھی ہیں تقریباً آٹھ دس سال اپنے خاوند کے ساتھ رہی پھر تقریباً دو سال تک وہ عورت اپنے میکے چلی گئی بچے خاوند کے پاس رہے دو سال بعد اس کا خاوند آیا اور اس نے کہا میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں یہ اس نے ایک ہی دفعہ کہا پھر اس نے ایک کاغذ پر باقاعدہ دستخط کر دئیے کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں مسئلہ در پیش یہ ہے کہ اس نے اس کو پہلے کہا کہ میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں پھر کاغذ پر بھی لکھ دیا اور اس بات کو تقریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے اب وہ عورت اپنے خاوند کو تو ناپسند کرتی ہے لیکن بچوں کی خاطر واپس جانا چاہتی ہے اس کا خاوند رضامند ہے تو کیا وہ دو طلاقیں ہو چکی ہیں اور اگر وہ رجوع کرنا چاہے تو عدت کے اندر کر سکتا ہے اور کیا واقعی یہ دو طلاقیں ہیں یا کہ ایک ہیں کیونکہ پہلے اس نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں ۔ پھر باقاعدہ طور پر دستخط بھی
[1] [البقرۃ ۲۳۰]
[2] البقرۃ ۲۲۹
[3] البقرۃ ۲۳۱
[4] البقرۃ ۲۲۸