کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 326
ج: آپ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں سے صلاح مشورہ فرما لیں ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں﴿وَالصُّلْحُ خَیْرٌ﴾ اور صلح بہتر ہے [1] اور بس ! تمام احباب واخوان کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش فرمادیں۔ ۲/۱۰/۱۴۱۹ ھ س: کیا زلیخا اور حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح ہوا تھا کیونکہ کہتے ہیں اس نے توبہ کر لی تھی اور دوبارہ جوان ہو گئی تھی ۔ وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔ (احسن التفاسیر میں لکھا ہے کہ نکاح ہو گیا تھا) عبدالرؤف یزدانی12/4/96 ج: احسن التفاسیر اور دیگر کئی کتب تفاسیر وغیرہ میں آپ والی بات لکھی ہے مگر ہے بالکل ہی بے اصل چنانچہ روح المعانی ص۵ج۱۳میں ہے : ’’وَشَاعَ عِنْدَ الْقُصَّاصِ أَنَّہَا عَادَتْ شَابَۃً إِکْرَامًا لَّہٗ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بَعْدَ مَا کَانَتْ ثَیِّبًا غَیْرَ شَابَۃٍ وَہٰذَا مِمَّا لاَ أَصْلَ لَہٗ ، وَخَبْرُ تَزَوُّجِہَا أَیْضًا مِمَّا لاَ یَعُوْلُ عَلَیْہِ الْمُحَدِّثِیْنَ۔۱ ھ ‘‘ ۲۳/۱۱/۱۴۱۶ ھ [اور قصہ گو لوگوں کے ہاں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ وہ دوبارہ جوان ہو گئی تھی اس (حضرت یوسف علیہ السلام) کے اکرام کی وجہ سے بعد اس کے کہ وہ ثیب تھی جوان نہ تھی اور یہ بات ان میں سے ہے جن کی کوئی اصل نہ ہے اور اس کے نکاح کی خبر پر بھی محدثین کا اعتماد نہیں ہے] س: عورت سے مہر معاف کرانا کیا یہ ضروری ہے کہ نہیں ؟ مختار احمد فاروقی ضلع ایبٹ آباد ج: مہر ادا کرنا ضروری ہے اگر بیوی مہر سارا یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو معاف کر سکتی ہے مگر اپنی رضا ورغبت سے نہ کہ خاوند وغیرہ کے جبر واکراہ سے ۔ ۱۴/۲/۱۴۱۵ ھ س: برادریاں جس طرح دھوبی ، ارائیں ، کمہار وغیرہ کا آپس میں ہی نکاح ہونا چاہیے یا باہر کریں اکثر دلیل دیتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں کے رشتے اپنی قریش برادری میں ہی کیے ہیں آپ وضاحت فرما دیں ؟ میاں محمد افضل لاہور 24/2/93 ج: دونوں صورتیں درست ہیں ۔ ۶/۹/۱۴۱۳ ھ س: زید کی حقیقی بیٹی ہے اس نے بکر کو کہا یہ آپ کی بیٹی ہے جہاں کہیں چاہیں اس کا نکاح کسی نیک لڑکے سے کر دیں بکر نے لڑکی کی شادی ایک داڑھی منڈھے سے کر دی جب کہ بچی درس نظامی کی فارغ شدہ ہے بکر انتہائی درجے کا نیک بزرگ اور عالم دین ہے اس کی عمر تقریباً ساٹھ برس کے قریب ہے اور لڑکے کی گھر میں ہمیشہ تنہائی میں اس کے
[1] [النساء ۱۲۸ پ۵]