کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 319
ج: عورت کا نکاح ولی کے بغیر نہیں ہوتامرد نکاح کے وقت اور موقع پر موجود نہ ہو اس کی طرف سے اس کی خاطر اس کا کوئی ثقہ وکیل قبول کر لے تو نکاح درست ہے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حبشہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود نہیں تھے آپ کی طرف سے آپ کے لیے آپ کے وکیل ہی نے قبول کیا تھا ۔ واللہ اعلم ۲۱/۱/۱۴۲۰ ھ س: کیا ولی کی موجودگی ضروری ہے یا صرف اجازت ہی لے لی جائے ؟ عبداللطیف تبسم ج: ولی بذات خود موجود ہو تو فبہا ورنہ اس کی اجازت کافی ہے بشرطیکہ اس نے اجازت برضا ورغبت دی ہو اور اجازت کا ثبوت بھی ہو ۔ ۱۱/۴/۱۴۲۰ ھ س: ہمارے ہاں نورستان میں کچھ دنوں قبل لڑکیوں کو مہر کے بارہ میں کوئی خبر نہ تھی کہ ہمارا حق ہے جو ہمیں ملنا چاہیے اب ان کو سوجھ بوجھ ہو گئی کہ ہمارا حق ہے اور ہمیں ملنا چاہیے تو کچھ علماء نے فتویٰ دے دیا ہے کہ لڑکی کا مہر باپ لے سکتا ہے دلیل یہ پیش کرتے ہیں ۔حدیث :﴿عن عائشۃ رضی اللّٰهُ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْل اللّٰه صلی للّٰهُ علیہ وسلم إِنَّ اَطْیَبَ مَا أَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ وَاِنَّ اَوْلاَدَکُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ[1] [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پاکیزہ وہ ہے جو تم اپنی کمائی سے کھاؤ اور بے شک تمہاری اولاد تمہاری کمائی سے ہے]﴿وَفِیْ لَفْظٍ وَلَدُ الرَّجُلِ مِنْ اَطْیَبِ کَسْبِہٖ فَکُلُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ہَنِیْئًا[2] [اور ایک حدیث میں ہے کہ آدمی کی اولاد اس کی پاک کمائی سے ہے تو تم ان کے مالوں سے چین سے کھاؤ]﴿وَحَدِیْثُ جَابِرٍ رضی للّٰهُ عنہ اَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِیْکَ[3] [اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے] ان حدیثوں کی روشنی میں کہتے ہیں کہ لڑکی کا باپ مہر کا حق دار ہے ۔ خلیل الرحمن نورستانی الجامعۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ النبویۃ السعودیۃ ج: اس حدیث کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ میراث والی آیات کو بھی پیش نظر رکھیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کے مال میں والدین کا حصہ ہے اوروالدین کے مال میں اولاد کا حصہ ہے نیز ثابت ہوتا ہے کہ اولاد اپنے مال کی خود آپ مالک ہے یوں نہیں کہ اولاد کے مال کا مالک ان کا والد ہو ورنہ لازم آئے گا کہ والد اپنی اولاد کے مال کا ان کی وفات کے بعد وارث نہ بنے اور والد کے علاوہ مثلاً اولاد کی بیوی یا خاوند یا اولاد کی اولاد کو کچھ نہ ملے کیونکہ اس صورت میں والد کو اولاد کے مال کا مالک فرض کر لیا گیا ہے تو اس صورت مفروضہ میں اولاد کے مال کی حیثیت والد کی بنسبت
[1] رواہ الخمسۃ [مشکوۃ ۔ کتاب البیوع باب الکسب وطلب الحلال ۔ الفصل الثانی] [2] رواہ احمد ص۴۱ ج۶ [3] رواہ ابن ماجہ وابوداود مشکوۃ ۔ کتاب النکاح باب النفقات وحق المملوک الفصل الثانی