کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 306
کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں ۔
پھر صورت مسؤلہ میں نکاح اذن ولی کے بغیر ہے اور اذن ولی کے بغیر نکاح درست نہیں قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں لوگ اذن ولی کے بغیر نکاح کر لیا کرتے تھے اسلام نے اسلامی نکاح کے علاوہ جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے صحیح بخاری میں ہے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :﴿فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صلی للّٰهُ علیہ وسلم بِالْحَقِّ ہَدَمَ نِکَاحَ الْجَاہِلِیَّۃِ کُلَّہُ إِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْیَوْمَ﴾ [پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا ساتھ حق کے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے مگر وہ نکاح جو آج لوگ کرتے ہیں] اور ’’نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ‘‘ کی وضاحت اسی حدیث میں پہلے آ چکی ہے چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں :﴿فَنِکَاحٌ مِنْہَا نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ یَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ وَلِیَّتَہُ أَوِ ابْنَتَہُ ، فَیُصْدِقُہَا ، ثُمَّ یَنْکِحُہَا﴾ [1] [پس ان نکاحوں میں سے ایک نکاح وہ ہے جو آج لوگ کرتے ہیں کہ آدمی دوسرے آدمی کو پیغام دیتا اس لڑکی کے متعلق جو اسکی سرپرستی میں ہوتی یا اس کی بیٹی کے متعلق پس وہ اس لڑکی کا حق مہر مقرر کرتا پھر اس سے نکاح کرتا]
عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں ۔ [2]
ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے ۔ ان شاء اللّٰه الرحمان
۲۳/۲/۱۴۲۰ ھ
س: تفسیر مظہری صفحہ ۴۰۱ میں ہے اگر کوئی عورت اپنا نفس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دے تو یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے آگے لکھا ہے کہ (یہ مسئلہ) ’’وَّہَبَتْ نَفْسَہَا‘‘ کا معنی ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ کو کسی مرد کے نکاح میں بغیر مہر کے
[1] جلد دوم کتاب النکاح باب من قال لا نکاح الا بولی ص ۷۶۹ وص ۷۷۰
[2] ارواء الغلیل حدیث نمبر ۲۶۰۰