کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 303
حق مہر میں دونوں طرف پر چودہ چودہ گائیں مقرر کی گئیں جب کہ ایک بکری اس پر زائد مقرر ہوئی۔ مجھے آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا یہ نکاح شریعت کے مطابق صحیح ہے کہ نہیں اگر صحیح نہیں ہے تو دونوں پر نکاح کا فسخ عائد ہوتا ہے یا ایک پر اور اگر ایک پر ہے۔ تو وہ کس پر مجھ پر یا میری بہن پر ۔ اگر دونوں پر نکاح فسخ عائد ہوتا ہے تو کیا اس کے بعد تجدید نکاح کر سکتے ہیں کہ نہیں ؟ مہربانی فرما کر قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا جواب عربی میں دے کر مشکور فرما دیں؟ ج: فَقَدِ اضْطَرَبَتْ کَلِمَاتُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِیْ صُوْرَۃِ الشِّغَارِ الَّتِیْ سَأَلْتَنِیْ عَنْہَا ، فَکَلِمَۃُ بَعْضِہِمْ أَنَّہَا تَجُوْزُ ، وَکَلِمَۃُ بَعْضِہِمْ أَنَّہَا لاَ تَجُوْزُ ، وَالْأَرْجَحُ مِنْ أَقْوَالِہِمْ أَنَّہَا لاَ تَجُوْزُ ، فَالنِّکَاحَانِ مَفْسُوْخَانِ، بَلْ لَمْ یَنْعَقِدْ مِنْ أَصْلِہِمَا لِأَنَّ النَّبِیَّ صلی للّٰهُ علیہ وسلم نَھٰی عَنِ الشِّغَارِ، وَقَالَ : لاَ شِغَارَ ۔ وَالنَّہْیُ یَقْتَضِیْ الْفَسَادَ ۔ وَالْخَبَرُ یَسْتَدْعِیْ عَدَمَ الْوُقُوْعِ ، وَاللّٰهُ أَعْلَمُ ۲۸/۲/۱۴۱۸ ھ [شغار کی وہ صورت جس کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے اہل علم کے اقوال مختلف ہیں بعض کا قول ہے کہ وہ جائز ہے اور بعض کا قول ہے کہ وہ ناجائز ہے علماء کے اقوال میں سے راحج قول یہ ہے کہ وہ ناجائز ہے پس دونوں نکاح فسخ ہیں بلکہ وہ بنیادی طور پر منعقد ہی نہیں ہوئے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ شغار نہیں ہے اور نہی فساد کا تقاضا کرتی ہے اور خبر عدم وقوع کا تقاضا کرتی ہے] س : کیا اہل حدیث لڑکی کا نکاح شرکیہ یا بدعتی عقائد رکھنے والے شخص سے ہو سکتا ہے اور کیا امام ایسا نکاح پڑھا سکتا ہے ؟ عبداللطیف تبسم اوکاڑہ ج: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :﴿وَلاَ تُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُوْمِنُوْا[1] [اور مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مسلمان عورتوں سے ان کا نکاح نہ کرو] الآیۃ ۔ قضاۃ، ولاۃ اور نکاح خواں سبھی اس آیت کریمہ میں مخاطب ہیں نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے﴿لاَہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلاَ ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ[2] [نہیں وہ عورتیں حلال واسطے ان کافروں کے اور نہ وہ کافر حلال واسطے ان عورتوں کے]اور معلوم ہے کہ ہر مشرک بشرک اکبر کافر ہے البتہ بریلویوں ، دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ ان میں مشرک وکافر بھی ہوتے ہیں اور موحد ومؤمن بھی۔ ۲۸/۱۰/۱۴۱۸ ھ
[1] [البقرۃ ۲۲۱ پ۲] [2] [الممتحنۃ ۱۰پ۲۸]