کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 300
فرمائے آمین یا رب العالمین اس فرصت میں صرف چند چیزوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے وہ بھی صرف جذبہ نصیحت وخیرخواہی کے تحت کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ﴾ (الحدیث) جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ ان چیزوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جن پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت فرمائی﴿وَالنُّصْحُ لِکُلِّ مُسْلِمٍ﴾ مجھے آپ کا ڈاک پتہ معلوم نہیں اس لیے مجلۃ الدعوۃ کے پتہ پر مکتوب ارسال کر رہا ہوں امید ہے آپ محسوس نہیں فرمائیں گے ان شاء اللہ تبارک وتعالیٰ
(۱)عمرہ کا سنت طریقہ بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں : ’’میقات سے احرام باندھے اور بیت اللہ پہنچ کر بیت اللہ کے گرد سات طواف کرے ‘‘ الخ الفاظ ’’سات طواف کرے ‘‘ کی جگہ یہ عبارت ’’سات اشواط (پھیروں) کا ایک طواف کرے‘‘ ہو تو بہت ہی زیادہ مناسب ہے ۔
(۲)آپ لکھتے ہیں : ’’جس نے حج کیا ہوا ہو وہ دوسرے کی طرف سے حج کر سکتا ہے اور اس پر قیاس کر کے عمرہ بھی کسی کی طرف سے ادا کر سکتا ہے ‘‘ معلوم ہو کہ کسی کی طرف سے عمرہ کرنے کی نص بھی موجود ہے چنانچہ مشکوٰۃ ہی میں کتاب المناسک الفصل الثانی میں لکھا ہے :﴿وَعَنْ أَبِیْ رَزِیْنٍ الْعُقَیْلِیْ أَنَّہٗ أَتَی النَّبِیَّ صلی للّٰهُ علیہ وسلم فَقَالَ : یَا رَسُوْلُ اللّٰهِ إِنَّ أَبِیْ شَیْخٌ کَبِیْرٌ لاَ یَسْتَطِیْعُ الْحَجَّ وَلاَ الْعُمْرَۃَ وَلاَ الظَّعنَ۔ قَالَ حُجَّ عَنْ أَبِیْکَ وَاعْتَمِر﴾[1] [ابی رزین عقیلی سے ہے بے شک وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میرا باپ بوڑھا ہے وہ حج کی طاقت نہیں رکھتا نہ ہی عمرہ کی اور نہ ہی سفر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اپنے باپ کی طرف سے حج کر اور عمرہ کر]
(۳)آپ لکھتے ہیں : ’’رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت کے بارے میں آپ نے فرمایا رمضان میں میرے ساتھ عمرہ کرنا حج کے برابر ثواب رکھتا ہے مشکوٰۃ کتاب المناسک گویا یہ فضیلت حدیث کے مطابق آپ کے ساتھ حج کرنے سے مشروط ہے‘‘ آپ کی اس عبارت میں دو چیزیں توجہ طلب ہیں ۔ (۱) میرے ساتھ عمرہ کرنا ۔ (۲) آپ کے ساتھ حج کرنے سے مشروط ۔ یہ دونوں چیزیں مجھے مشکوٰۃ کتاب المناسک میں نہیں ملیں اور نہ ہی کسی اور کتاب حدیث میں میری نظر سے گزری ہیں برائے مہربانی آپ مجھے ان دو چیزوں کے بارے میں حوالہ سے مطلع فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں برکت فرمائے ۔
[1] رواہ الترمذی وابوداود والنسائی وقال الترمذی : ہذا حدیث حسن صحیح