کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 298
لحسنہ ، ولیس کما قال ففی سندہ محمد بن عبدالرحمن ابن البیلمانی وہو ضعیف وقد اتہمہ ابن عدی وابن حبان وممن جزم بضعفہ الحافظ الہیثمی حیث قال (ج۴ : ۱۶) بعد ذکرہ : رواہ أحمد وفیہ محمد بن البیلمانی وہو ضعیف ۔ (ج۶ ص۳۱۰)‘‘
(۲) جب یہ روایت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی جیسا کہ تفصیل کر دی گئی ہے تو اسکے ترجمہ ، مفہوم اور مطلب پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں تاہم اتنی بات ذہن میں رکھیں کہ ’’قَبْلَ اَنْ یَدْخُلَ بَیْتَہ‘‘ ’’ مُرہُ اَنْ یَسْتَغْفِرَ لَکَ‘ ‘ کی ظرف ہے ’’فَاِنَّہُ مَغْفُوْرٌ لَّہُ ‘‘ کی ظرف نہیں اس حدیث سے تو بوجہ ضعف کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا البتہ صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج مبرور سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں چنانچہ بخاری ومسلم کی مرفوع حدیث ہے﴿مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمَ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ﴾[1] [جس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے حج کیا اور جماع اور نافرمانی خدا کی نہیں کی وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے جس طرح اس کی ماں نے اس کو جنا تھا ]
(۳) صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے اہل مکہ کو ایک مکتوب لکھا جس میں وہ ان کو ایک خاص مقصد وغرض کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ان پر حملہ کرنے کے منصوبے سے آگاہ کرنا چاہتے تھے قصہ مختصر ان کا یہ مکتوب پکڑا گیا انہیں بلایا گیا جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غیظ وغضب میں آ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا یہ حاطب رضی اللہ عنہ غزوئہ بدر میں شریک وحاضر تھے اور بدریوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ﴾ [2]دیکھئے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی یہ لغزش بعد کی ہے مگر اس کی مغفرت ومعافی کا اعلان پہلے ہو چکا ہے اس لیے کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی کے متعلق مغفرت ومعافی کا اعلان آ جائے تو اس سے سابقہ ولاحقہ گناہوں کی مغفرت ومعافی ہی مراد ہوتی ہے الا یہ کہ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کہیں اس کی تقیید وتوقیت وارد ہو جائے جیسا کہ حج میں گزرا ہے پھر روزہ وقیام رمضان میں اور دیگر کئی ایک اعمال صالحہ میں وارد ہوا ہے﴿غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ﴾ (متفق علیہ) ۲۴/۳/۱۴۰۹ ھ
س: (۱)میری والدہ محترمہ (رحمہا اللہ) وفات پا چکی ہیں کیا میں ان کی طرف سے حج یا عمرہ کر سکتا ہوں جبکہ ان پر حج واجب نہیں ہوا تھا ۔نیز
(۲) میری ساس صاحبہ (رحمہا اللہ) جو کچھ عرصہ پہلے فوت ہوئیں انہوں نے وصیت کی کہ میں ان کی طرف سے حج وعمرہ
[1] [بخاری کتاب الحج باب فضل الحج المرور]
[2] [بخاری ۔ کتاب التفسیر ۔ سورۃ الممتنحۃ]