کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 297
(۲) حج افراد میں قربانی فرض نہیں اگر حج افراد والے قربانی بطور ہدی حج کریں تو ہر فرد اپنی اپنی قربانی علیحدہ علیحدہ کرے اور اگر حج افراد والے حج کی ہدی نہیں کرتے تو قربانی بطور اضحیہ کرتے ہیں تو پھر ایک گھر کے افراد مرد ، اس کی بیوی اور بچے وغیرہ ایک قربانی کر سکتے ہیں مگر افضل یہی ہے کہ جب وہ حج کرنے گئے ہوئے ہیں تو جو قربانی کریں بطور ہدی حج کریں کیونکہ اضحیہ قربانی کو تو وہ اپنے وطن بھی کر سکتے ہیں پھر وہاں سے چیزیں خرید کر لانا نہ فرض ہے اور نہ افضل ۔
س: مشکوٰۃ شریف جلد اول ص۲۲۳ میں ایک حدیث ہے :﴿عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی للّٰهُ علیہ وسلم اِذَا لَقِیْتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ وَصَافِحْہٗ وَمُرْہٗ اَنْ یَسْتَغْفِرَلَکَ قَبْلَ اَنْ یَدْخُلَ بَیْتَہُ فَاِنَّہٗ مَغْفُوْرٌ لَّہٗ رواہ احمد ۔﴾ [حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو حاجی کو ملے تو اس کو سلام کہہ اور اس سے مصافحہ کر اور اس کو کہہ کہ وہ تیرے لیے استغفار کرے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کیونکہ اس کی بخشش ہو چکی ہے] یہ حدیث مسند امام احمد میں جلد دوم ص ۶۹ میں موجود ہے ۔ اس سلسلے میں آپ جناب اور حضرت الحافظ عبدالسلام صاحب دونوں سے گزارش ہے کہ
(۱)سند کے لحاظ سے اس کی کیا اتھارٹی ہے ؟(۲) عام فہم ترجمہ کے مطابق اس کا مفہوم کیا ہے ؟
جو میرے ذہن میں اشکال ہے اس کی وضاحت کرتا ہوں تاکہ آپ کو میرا مقصد سمجھ آ جائے ۔ یہاں گھر میں داخل ہونے کی شرط لگائی گئی ہے یہ تو سمجھ میں بات آتی ہے کہ گھر میں داخل ہونے تک وہ مسافر تھا گھر پہنچ گیا سفر ختم ہوا لیکن مغفورلہ کا رتبہ اس کے ساتھ جب تک وہ کوئی گناہ نہیں کرتا قائم رہے گا یا گھر میں داخل ہوتے ہی وہ فضیلت بھی ختم ہو جائے گی ؟ گھر میں داخل ہونا کوئی گناہ کا کام تو نہیں ہے ۔ امید ہے آپ مختصر مگر جامع تشریح فرما کر عنداللہ اجر حاصل کریں گے ۔
نوٹ : اگر ممکن ہو سکے تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اقوال کی روشنی میں حدیث کی سند کی تحلیل فرمانا۔ امان اللہ ریحان سرگودھا روڈ فیصل آباد
ج: (۱) جس حدیث کے متعلق آپ نے دریافت فرمایا اس کی بابت محدث وقت فقیہ دوراں عالم ربانی شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ مشکوٰۃ کی تعلیق میں لکھتے ہیں : ’’واسنادہ ضعیف‘‘ (ص۷۷۸) شارح مشکوٰۃ صاحب مرعاۃ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’(رواہ أحمد) (ج۲ : ص۶۹،۱۲۸) بسند ضعیف ورمز السیوطی فی الجامع الصغیر