کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 292
لیے بھی جو وہاں سے گزر کر آئیں وہاں کے مقیمی نہ ہوں جو حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں[1]] (۲) فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ معظمہ میں بلا احرام داخل ہونا ۔ (۳)ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کا حمار وحشی کو شکار کرنے والا واقعہ اس میں تصریح ہے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ محرم نہیں تھے جبکہ ان کے ساتھی محرم تھے [2] استدلال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سے ہے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے عمل سے نہیں ۔
بغرض مزدوری جانے والا مذکورہ بالا صورت میں مکہ معظمہ پہنچ گیا ہے تو پہنچ کے روز سے عمرہ کو وہ مؤخر کر سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ فتح کرنے کے بعد بلا عمرہ کیے حنین کی طرف چلے گئے حنین کو بھی فتح کیا پھر حنین کی غنائم کو جعرانہ مقام پر آپ نے تقسیم فرمایا پھر اس کے بعد آپ نے عمرہ ادا کیا [3] حالانکہ مکہ فتح کرتے ہی فی الفور آپ عمرہ ادا کر سکتے تھے اس کے باوجود آپ نے عمرہ کو مؤخر فرما دیا ۔
بغرض مزدوری مکہ جانے والے نے اگر میقات تک پہنچنے سے پہلے حج یا عمرہ کا ارادہ کر لیا ہے تو اس کے لیے میقات سے بلااحرام گزرنا جائز نہیں دلیل مذکور بالا متفق علیہ حدیث شریف ہُنَّ لَہُنَّ الخ اور اگر ایسے شخص نے میقات سے گزرنے کے بعد اور مکہ معظمہ پہنچنے سے پہلے کسی مقام پر حج یا عمرہ کا ارادہ کیا ہو تو اس کے لیے اسی مقام ارادہ سے احرام باندھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی متفق علیہ حدیث میں فرماتے ہیں :﴿وَمَنْ کَانَ دُوْنَ ذٰلِکَ فَمِنْ حَیْثُ اَنْشَأَ حَتّٰی اَہْلُ مَکَّۃَ مِنْ مَکَّۃَ﴾[4] [اور جو ان مقامات کے اندر ہے پس وہ احرام باندھے جہاں سے شروع کرے ۔حتی کہ مکہ والے مکہ ہی سے]
بغرض مزدوری مکہ معظمہ جانے والا حج یا عمرہ کا ارادہ نہیں رکھتا اور بلا احرام باندھے مکہ معظمہ پہنچ جاتا ہے اور مکہ پہنچتے ہی حج کا ارادہ کر لیتا ہے تو مسئلہ صاف ہے اگر پہنچے اور ارادہ کی تاریخ آٹھ ذوالحج سے پہلے ہے تو طواف قدوم کے بعد آٹھ تک تاخیر ہو گی اور اگر اس نے مکہ معظمہ مذکورہ بالا صورت میں پہنچتے ہی عمرہ کا ارادہ کر لیا ہے تو بھی اس کے لیے دو چار دن یا زیادہ دن کی تاخیر عمرہ درست ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے﴿اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ﴾ فرمایا ہے﴿اِنَّمَا النِّیَّاتُ بِالْاَعْمَالِ﴾ نہیں فرمایا پھر اہل مکہ یا غیر اہل مکہ پر حج یا عمرہ فرض ہو جانے کے بعد ان کی تاخیر روا ہے جبکہ مومن حج یا عمرہ فرض ہوتے ہی اس کی نیت کر لیتے ہیں کہ ہم حج یا عمرہ ضرور ادا کریں گے ۔ ان شاء اللہ
۱۷/۷/۱۴۰۷ ھ
[1] [بخاری کتاب الحج باب مہل من کان دون المواقیت]
[2] [بخاری ۔ کتاب جزاء الصید ۔ باب إذا صاد الحلال فاہدی للمحرم الصید اکلہ]
[3] [بخاری ۔ کتاب العمرۃ ۔ باب کم اعتمر النبی صلى اللّٰه عليه وسلم]
[4] [بخاری ۔ کتاب الحج ۔ باب مہل أہل مکۃ للحج والعمرۃ]