کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 275
(ان شاء اللہ) ہم اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ یاسمین کمرہ نمبرB -34 عائشہ ہال پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد ج: جو حالت وکیفیت سوال میں بیان کی گئی ہے اگر نفس الأمر اور واقع میں بھی یہی حالت وکیفیت ہے تو ایسی حالت وکیفیت والوں پر زکوٰۃ وصدقہ کو صرف کرنا شرعاً درست اور جائز ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالغَارِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَ اللّٰہِ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خاندان نیز ہر مسلمان کی ہمہ قسم کی پریشانیاں دور فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۲۵/۱۱/۱۴۱۸ ھ س: کیا سید آل رسول کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے جب کہ وہ قریبی رشتہ دار ہو ۔ سید راشد علی سکھر سندھ ج: زکوٰۃ اور صدقات کے اصل حقدار آٹھ قسم کے مسلمان ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَ اللّٰہِ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ[1] [سوائے اس کے نہیں کہ خیرات واسطے فقیروں کے اور محتاجوں کے اور عمل کرنے والوں کے اوپر تحصیل اس کی کے اور جن کو کہ الفت دلائے جاتے ہیں دل ان کے اور بیچ آزاد کرنے گردنوں کے اور قرض داروں کے اور مجاہد اور مسافروں کو فرض ہے اللہ کی طرف سے اللہ جاننے والا حکمت والا ہے] سید آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زکوٰۃ اور صدقہ حلال نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے﴿وَاِنَّہَا لاَ تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ (صلي اللّٰه عليه وسلم )وَلاَ لآلِ مُحَمَّدٍ(صلي اللّٰه عليه وسلم )[2] [صدقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جائز نہیں] سید آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی قریبی رشتہ دار مندرجہ بالا آٹھ مصارف میں سے کسی ایک میں شامل ہو تو اس کو صدقہ اور زکوٰۃ دئیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ صدقہ وزکوٰۃ دینے والے کی بیوی اور نابالغ اولاد میں شامل نہ ہو سید آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ وزکوٰۃ کے علاوہ دوسرے مال سے تعاون کیا جائے ۔ ۶/۱۰/۱۴۱۸ ھ س: فطرانہ عیدالفطر کا چاند نظر آنے سے کتنے دن پہلے ادا کرنا چاہیے ؟ عبدالعزیز اعوان نگری بالہ ہزارہ ج: بہتر ہے آخری عشرہ میں ادا کیا جائے اگر عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو فطرانہ نہیں ہو گا۔ ۳/۱۰/۱۴۱۶ ھ [عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہ ِصلی اللّٰہ علیہ وسلم زَکٰوۃَ الْفِطْرِ طُہْرَۃً لِّلصِّیَامِ مِںَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِّلْمَسَاکِیْنِ مَنْ
[1] [سورۃ التوبۃ ۶۰پ۱۰] [2] [مسلم کتاب الزکوۃ باب تحریم الزکاۃ علی رسول اللّٰه وعلی آلہ]