کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 274
السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ[1] [صدقات ، فقراء ، مساکین ، اس پر کام کرنے والے ، جن کے دلوں کی تالیف مطلوب ہو ۔ قیدی آزاد کرانے میں ، مقروض لوگوں کے لیے ، اللہ کے راستے میں اور مسافروں کے لیے، یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور وہ جاننے والا حکمت والاہے] رسالہ ’’پیغام‘‘ ہو خواہ کوئی اور رسالہ یا کتاب اس پر صدقہ یا زکوٰۃ کا مال صرف ہو سکتا ہے بشرطیکہ اسے طبع کروانے کے بعد قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں بیان شدہ آٹھ قسم کے لوگوں میں ہی تقسیم کیا جائے اور ان آٹھ کے علاوہ کسی کو وہ رسالہ نہ دیا جائے ۔ اگر کتاب یا رسالہ کو عام لوگوں میں تقسیم کرنا ہے جن میں مذکورہ بالا آٹھ بھی شامل ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی شامل ہیں تو پھر اس پر صدقہ یا زکوٰۃ کا مال صرف نہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ﴾ الآیۃ واللہ اعلم ۱۸/۴/۱۴۲۰ ھ س: ہمارے گاؤں نگری بالا میں مقامی بچوں کا ایک مدرسہ واقع ہے ۔ بچوں کی تعلیم کے لیے تین اساتذہ مقرر ہیں۔ ان کی سالانہ تنخواہ مبلغ اٹھارہ ہزار روپے /۱۸۰۰۰ مقامی حضرات کی زکوٰۃ اور قربانی کے چمڑوں سے پوری کی جاتی ہے۔ اس میں اگر کوئی غیر شرعی امر مانع ہے تو مطلع فرمائیں ؟ جزاک اللّٰہ !نوٹ : ان کے قیام اور طعام کا انتظام نہیں ہے ۔ المستفتی : ابوالحسان عبد المتین انصاری ۱۶رمضان المبارک ۱۴۱۴ ھ مرکزی مسجد اہل حدیث نگری بالا ایبٹ آباد ج: صدقہ وزکوٰۃ کے مصارف اللہ تعالیٰ نے آٹھ بیان فرمائے ہیں﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ﴾ الآیۃ آپ نے جو صورت ذکر فرمائی ہے اگر ان آٹھ مصارف میں سے کسی ایک مصرف کا مصداق ہے تو فبہا ورنہ زکوٰۃ کو اس صورت پر صرف کرنا درست نہیں ۔ واللہ اعلم ۲۱/۹/۱۴۱۵ ھ س: ایک بچی جس کے والد صاحب بے روزگار ہیں وہ خود ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہی ہے ۔ اس تعلیم کے حصول کے لیے اس نے ماں باپ کا ذاتی گھر بیچ کر پیسے داخلے کے لیے دیئے ہیں اور اب وہ بچی اور اس کی والدہ اور بہن بھائی اپنے نانا ابو کے گھر میں مقیم ہیں ۔ وہ بچی ماشاء اللہ نیک ہے ۔ دین کی سمجھ بوجھ رکھتی ہے ۔ مخلوط ادارے میں پڑھتی ہے مگر چہرے کے پردے سے آراستہ ہے ۔ حیا والی ہے ۔ قرآن پاک کی تدریس میں حصہ لیتی ہے۔ قرآن سیکھتی ہے۔ اللہ کے دین کا کوئی کام ہو ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اگر ڈاکٹر بنے گی تو ان شاء اللہ ایک اچھی مومنہ ڈاکٹر بنے گی۔ ڈاکٹر تو یہودی عورتیں بھی ہوتی ہیں ۔ عیسائی عورتیں بھی ہوتی ہیں مگر وہ اللہ کے دین کی شہادت دے گی ۔
[1] [التوبۃ ۶۰ پ۱۰]