کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 270
ہے کیونکہ قرآن مجید میں﴿وَحَرَّمَ الرِّبٰو﴾ باقی مال اس کا ہے جو اس کی ملازمت کا معاوضہ ہے اور یہ معاوضہ بھی اس صورت میں حلال ہو گا جس صورت میں اس کی ملازمت شرعاً جائز ہو اور اگر وہ ملازمت ہی شرعاً ناجائز ہے مثلاً سودی کاروبار میں منشی ، منیجر یا کلرک وغیرہ بننا توپھر وہ معاوضہ بھی حلال نہیں۔ کسی شخص کی آمدنی اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکاۃ فرض ہو جاتی ہے خواہ اس کا گھریلو خرچ بمشکل پورا ہو خواہ بسہولت یاد رہے نصاب½ ۵۲ تولہ چاندی ہے یا اس کی مالیت نقدی ۔ س: کیا مکان پر زکوٰۃ ہے ؟ محمد بشیر طیب کویت ج: مکان اگر تجارتی ہے تو پھر اس کی مالیت اور کرایہ دونوں پر زکاۃ ہے اور اگر محض کرایہ کے لیے بنایا گیا ہے تجارتی نہیں تو پھر صرف کرایہ پر زکاۃ ہے مالیت پر زکاۃ نہیں ۔ ۱۳/۸/۱۴۲۰ ھ س: (۱) ایک شخص نے کسی کو دس ہزار روپے قرض دیا ہوا ہے دو تین سال کے بعد واپس ملنے کی امید ہے کیا قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ سال گزرنے کے بعد دس ہزار کی زکوٰۃ دے یا قرض لینے والے پر ضروری ہے کہ وہ اس رقم کی زکوٰۃ اداکرے ۔ (۲) ایک آدمی پر بیس ہزار روپے قرض ہے اور اس کے پاس ۱۵ ہزار روپے مالیت کا سونا ہے کیا وہ سونے کی زکوٰۃ سے قرض ادا کر سکتا ہے یا کہ نہیں ۔ یا پھر اس پر زکوٰۃ ضروری ہے یا نہیں ۔ کیونکہ وہ مقروض ہے ۔ وضاحت فرمائیں ؟ حبیب الرحمان تحصیل وضلع ایبٹ آباد 25/4/88 ج: (۱) قرض پر دی ہوئی رقم کی زکاۃ قرض دینے والے پر ہوتی ہے نہ کہ قرض لینے والے پر اور اگر قرض لینے والے پر زکاۃ ادا کرنے کی شرط عائد کر دی جائے تو یہ ناجائز ہے اور اگر مقروض اس ناجائز شرط کی پابندی کرتے ہوئے قرض پر لی ہوئی رقم کی زکاۃ ادا کرے تو یہ سود کے ضمن میں آئے گی یا پھر قرض دینے والا اس کی ادائیگی کر دے ۔ (۲) صورت مسؤلہ میں وہ سونے کی زکاۃ سے اپنا قرض ادا نہیں کر سکتا کیونکہ زکاۃ دینے والا زکاۃ کو اپنی ذات پرصرف نہیں کر سکتا ۔ صورت مسؤلہ میں مقروض پر زکاۃ ضروری ہے کیونکہ وہ نصابی مال کا مالک ہے زکاۃ ادا کرنے کے بعد باقی مال سے وہ اپنی حاجات پوری کرے قرض کی ادائیگی بھی اس کی حاجت میں شامل ہے ۔ ۲۳ رمضان المبارک ۱۴۰۸ ھ س: عرض خدمت ہے کہ سائل ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا ہے ۔ سائل نے جو گاڑیاں فروخت کی ہوئی ہیں ان کی