کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 266
سکتے ہیں بشرطیکہ کتاب وسنت کے مخالف نہ ہوں ۔ (۲) سوگ ترک زینت کا نام ہے ۔ اچھے کپڑے نہ پہننا زیور نہ پہننا اور پہنا ہوا اتار دینا خوشبو وغیرہ نہ لگانا گھر سے باہر نہ نکلنا وغیرہ سوگ ہے یہ عورتوں کے لیے ہے چنانچہ حدیث ہے :﴿لاَ یَحِلُّ لاِمْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلاَّ عَلٰی زَوْجٍ فَإِنَّہَا تُحِدُّ عَلَیْہِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا﴾ [1] [کسی عورت کے لیے جائز نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے علاوہ خاوند کے پس بے شک وہ خاوند پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے] (۳) شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ أحکام الجنائز وبدعہا‘‘ کے صفحہ ۱۶۷ پر لکھتے ہیں ۱۱۴ ’’ویَنْبَغِی اجْتِنَابُ أَمْرَیْنِ وَإِنْ تَتَابَعَ النَّاسُ عَلَیْہِمَا (أ) اَلْاِجْتِمَاعُ للِتَّعْزِیَۃِ فِی مَکَانٍ خَاصٍ کَالدَّارِ أَوِ الْمَقْبَرَۃِ أَوِ الْمَسْجِدِ (ب) اِتَّخَاذُ أَہْلِ الْمَیِّتِ الطَّعَامَ لِضِیَافَۃِ الْوَارِدِیْنَ لِلْعَزَائِ ۔ وَذٰلِکَ لِحَدِیْثِ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ الْبجلی رضی للّٰهُ عنہ قال : کُنَّا نَعُدُّ (وفی روایۃ : نَرَی) الْاِجْتِمَاعَ إِلٰی أَہْلِ الْمَیِّتِ وصَنْعَۃَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِہِ مِنَ النِّیَاحَۃِ‘‘ [اور دو کاموں سے بچنا چاہیے اگرچہ لوگ وہ کام کر رہے ہیں (۱) کسی خاص مقام میں تعزیت کے لیے جمع ہونا مثلاً گھر میں یا قبرستان میں یا مسجد میں (ب) اہل میت کا مہمانوں کی ضیافت کے لیے کھانا تیار کرنا جو تعزیت کے لیے آئے ہیں اور یہ اس لیے کہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم شمار کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے ہم سمجھتے تھے میت کے گھر جمع ہونا اور اس کے دفن کے بعد کھانا تیار کرنا نوحہ ہے] [2] تو جب اجتماع ہی ثابت نہیں تو میت والوں کے گھر اجتماع میں تقریر کرنا شرعی نص سے کیونکر ثابت ہو گا؟ (۴) تعزیت کے لیے وقت کی تخصیص وتحدید کہیں نہیں آئی تین دن غیر شوہر کے لیے اور چار ماہ دس دن شوہر کی خاطر عورت کے سوگ کے لیے ہیں نہ کہ تعزیت کے لیے اور نہ ہی مردوں کے سوگ وتعزیت کے لیے ۔ واللہ اعلم ۵/۱/۱۴۱۵ ھ س: قبر کی زیارت کے لیے مردوں اور عورتوں کے لیے کیا حکم ہے ۔ کئی مولوی حضرات کہتے ہیں کہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] [بخاری ۔ کتاب الجنائز ۔ باب احداد المرأۃ علی غیر زوجہا] [2] (اخرجہ احمد (رقم ۶۹۰۵) وابن ماجہ (۱/۴۹۰) والروایۃ الاخری لہ وأسنادہ صحیح علی شرط الشیخین وصحح النووی (۵/۳۲۰) والبوصیری فی الزوائد)