کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 265
انہیں تسلی دلائے ۔ ۱۱/۴/۱۴۲۰ ھ
س: کسی کے مرنے کے بعد بھورے پر بیٹھ کر اجتماعی صورت میں یا انفرادی صورت میں یا کسی اور تعزیتی محفل میں ہاتھ اٹھا کر اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنا شرعی اعتبار سے کیا حکم ہے جبکہ مومن کے لیے مغفرت کی دعا کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے ؟ محمد اکرم اوکاڑہ
س: کسی کے مرنے کے بعد بھورے پر بیٹھ کر اجتماعی یا انفرادی طور پر ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے دعا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں تعزیتی محفلوں اور جلسوں کا بھی یہی حکم ہے ۔ قیود صرف رواج کے پیش نظر لگائی گئی ہیں ۔ ۱۱/۱۰/۱۴۰۶ ھ
ج: ہمارے علاقہ میں بعض جگہ کسی شخص کی وفات پر لوگ ان امور کی پابندی کرتے ہیں۔
(۱) میت کی تدفین کے بعد مسلسل تین دن تک مغرب سے عشاء تک پابندی کے ساتھ حاضری دیتے ہیں یعنی میت والے گھر میں ۔
(۲) ان تین ایام میں مقامی مسجد کے خطیب صاحب اس اجتماع سے خطاب کرتے ہیں۔
جواب طلب مسئلہ یہ ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ :
(i)تعزیت کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟
(ii)سوگ کسے کہتے ہیں اور کیا میت کے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے پر سوگ منانا لازمی ہے ؟
(iii)اس اجتماع کے موقع پر تقریر کرنا کسی شرعی نص سے ثابت ہے ؟
(iv)تعزیت کے لیے کسی مخصوص وقت کی پابندی لازمی ہے یا جب بھی کسی کو فراغت ملے تب تعزیت کرے ؟ یبنوا فجزاکم اللّٰہ خیرا الجزاء لہ الحمد فی الاولی والآخرۃ !
المستفتون :حافظ عبدالقیوم انصاری ، حاجی لعل خان صاحب ، سردار عزیز الرحمان صاحب ، حاجی محمد سلیمان صاحب، سردار یعقوب خان صاحب
س: (۱) تعزیت کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں اہل میت کو تسلی دی جائے ، صبر کی تلقین کی جائے اور مصیبت پر صبر جمیل کے اجر کا تذکرہ کیا جائے ۔ بہتر ہے تعزیت کے لیے ان ہی الفاظ کا انتخاب کیاجائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعزیت کے موقع پر استعمال فرمایا کرتے تھے [1]موقع کی مناسبت سے کچھ اور الفاظ بھی استعمال کیے جا
[1] [اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہُ مَا اَعْطَی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ اِلیٰ اَجَلٍ مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ] [صحیح بخاری۔کتاب الجنائز۔ باب قول النبی علیہ السلام یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ۔ صحیح مسلم۔ کتاب الجنائز۔ باب البکاء علی المیت۰ سنن النسائی۔کتاب الجنائز۔باب الامر بالاحتساب والصبر عند نزول المصیبۃ]